گکھڑوی سے بھی استفادہ کیا، اس لیے وہ مولانا سلطان احمد کے ساتھ مولانا احمد الدین گکھڑوی کو بھی اپنے استاذ قرار دیتے تھے۔ حافظ صاحب کہا کرتے تھے کہ جولاہوں نے میری تندیں ٹھیک کیں اور لوہاروں نے میری لائٹیں صحیح کیں۔جولاہوں سے مراد ان کے استاذ مولانا سلطان احمد انصاری(ساکن نت کلاں)تھے اور لوہاروں سے مراد تھے مولانا احمد الدین گکھڑوی۔ حافظ صاحب کے والد سخت قسم کے بریلوی اور پیر پرست تھے، لیکن خود حافظ صاحب مولانا سلطان احمد کے فرمان سے اثر پذیر ہو کر دائرہ اہلِ حدیثیت میں داخل ہو گئے تھے۔ان کے والد صاحب کے پیر ساہیوال کے قریب کسی گاؤں میں رہتے تھے اور وہ کبھی کبھی اپنے پیر کی زیارت کے لیے وہاں جایا کرتے تھے۔پیر صاحب کے بارے میں وہ عقیدت مندانہ لہجے میں کہا کرتے تھے کہ وہ غائبانہ طور پر ہمارے خاندان کے متعلق مکمل معلومات رکھتے اور سب افراد کے نام بتا دیتے ہیں۔انھوں نے ایک روز اپنے بیٹے(حافظ محمد یوسف)سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو اور پیر صاحب سے ملو، ان سے مل کر اور ان کی باتیں سن کر تمھیں بہت سے معاملات کا پتا چلے گا۔حافظ صاحب نے کہا یہ لوگ شعبدہ باز ہوتے ہیں، ادھر ادھر کی باتیں سنا کر لوگوں کو لوٹتے ہیں، انھیں صحیح بات کا علم نہیں ہوتا، لیکن آپ مجھے ضرور ساتھ لے جانا چاہتے ہیں تو چلیے میں چلا جاتا ہوں، لیکن وہ میرے خاندان کے نام تو کجا خود میرا نام بھی نہیں بتا سکے گا۔بیٹے کی یہ بات سن کر والد محترم نے فرمایا اگر وہ نہ بتا سکا تو میں مسلک اہلِ حدیث اختیار کر لوں گا، چنانچہ یہ دونوں باپ بیٹا پیر صاحب کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ پیر صاحب نیم عریاں بیٹھے ہیں اور چند خواتین ان کی مجلس میں موجود ہیں۔ |