Maktaba Wahhabi

319 - 346
تھے۔وہ محدث پنجاب حضرت عبدالمنان وزیر آبادی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔انھوں نے پنجابی نظم میں حضرت حافظ صاحب کے سوانح حیات لکھے ہیں۔ابتدا میں اس علاقے میں اہلِ حدیث کی مسجد صرف نت کلاں ہی میں تھی جس میں مولانا سطان احمد درس و تدریس کا فریضہ بھی سر انجام دیتے تھے اور جمعہ و جماعت کا سلسلہ بھی انہی کے سپرد تھا۔ان کا ذریعہ معاش گھر میں کھڈی پر کپڑا بننا تھا۔ان کا تذکرہ مولانا احمد الدین گکھڑوی کے اساتذہ کے سلسلے میں کتاب کے چوتھے باب اور دیگر مقامات میں قارئینِ کرام کے مطالعہ میں آ چکا ہے۔ ایک دن حافظ صاحب کسی کام سے نت کلاں گئے اور وہاں کی مسجد اہلِ حدیث میں نماز پڑھی۔مولانا سلطان احمد بھی اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور حافظ صاحب کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔جب یہ نماز پڑھ چکے تو مولانا نے ان سے کہا: آپ نے صحیح طور پر نماز نہیں پڑھی، حافظ صاحب ان کی یہ بات سن کر بھڑک اٹھے، کہا: تم وہابی اپنے گھر رہو۔میں نے نماز بالکل صحیح طریقے سے پڑھی ہے۔ بریلویت سے اہلِ حدیثیت کی طرف: مولانا نے فرمایا: آپ آرام سے سنیں، میں آپ کو نماز کے بارے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سناتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسمِ گرامی سن کر حافظ صاحب ان کے پاس بیٹھ گئے۔انھوں نے جب حضور علیہ صلاۃ وسلام کے طریقہء نماز کے متعلق بتایا تو حافظ صاحب نے بریلویت ترک کر کے مسلکِ اہلِ حدیث اختیار کر لیا۔پھر مولانا ممدوح سے دینی تعلیم حاصل کرنے لگے۔احمد الدین گکھڑوی بھی اپنے کام سے فارغ ہو کر مولانا سلطان احمد سے درسی کتابیں پڑھنے جایا کرتے تھے۔حافظ صاحب نے اس اثنا میں مولانا احمد الدین
Flag Counter