ان کے بعد مولانا نور حسین گرجاکھی پھر تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور مزید دلائل دیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہ تھا۔اس تقریر سے لوگ پہلے سے بھی زیادہ متاثر ہوئے۔ دونوں حضرات کی تقریریں لوگ نہایت خوشی اور تحمل سے سن رہے تھے۔کسی طرف سے کسی کی مخالفت نہیں کی گئی۔تا ہم بریلوی حضرات پریشان دکھائی دے رہے تھے۔اتنے میں ظہر کی اذان ہوئی تو پریشان حضرات کی جان میں جان آئی۔ پہلی تقریروں کے بعد دونوں مناظروں کی دس دس منٹ کی باریاں مقرر تھیں، لیکن مولانا محمد عمر اچھروی بسا اوقات پانچ منٹ کے بعد ہی بیٹھ جاتے تھے، جب کہ مولانا نور حسین گرجاکھی کو اپنی بات مکمل کرنے کے لیے دس منٹ بھی کم ہوتے۔ اب مناظرہ دوسرے دن کے لیے ملتوی ہو گیا۔دوسرے دن کا موضوع تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مختارِ کل ہونا۔بریلوی علما نے ثابت کرنا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں مختارِ کل ہیں، جب کہ مولانا نور حسین کا یہ موقف تھا کہ مختارِ کل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، بلکہ اختیارات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔یہ مناظرہ مغرب تک جاری رہا اور لوگ نہایت سکون سے بیٹھے مناظرین کی باتیں سنتے رہے، لیکن تیسرے دن مناظرہ نہیں ہوا، اس لیے کہ بریلوی حضرات نے شہر کے حکام بالا سے بات کی اور یہ تاثر دیاکہ مناظرے کی وجہ سے شہر میں فساد کا خطرہ ہے۔ان کے کہنے پر مقامی حکومت نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی اور مناظرے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ یہ مناظرہ قیامِ پاکستان سے دو یا تین سال پہلے ہوا تھا، لیکن افسوس ہے گوجراں والا کے اس بہت بڑے اور مشہور مناظرے کی روداد کسی نے قلم بند نہیں کی۔دلائل کے اعتبار سے بھی اہلِ حدیث کا یہ کامیاب مناظرہ تھا اور یہ بات بھی نہایت اہم تھی کہ بہت بڑی حاضری کے باوجود لوگوں نے بے حد سکون اور اطمینان سے |