دونوں طرف کے علماے کرام کی باتیں سنیں اور مولانا نور حسین کی تقریر سے علمِ غیب کے بارے میں لوگوں کے شکوک رفع ہو گئے۔ اسی مجلس میں مولانا بشیر حسین کے ایک مرید نے مولانا نور حسین کی تقریر سن کر اپنے بریلوی ساتھی سے پنجابی میں کہا: ’’وہابیوں کا مولوی تو قرآن کی آیتیں پڑھتا تھا اور تم سے جواب میں کچھ بھی نہ ہو سکا۔‘‘ اگلے دن کلاس میں ہمارے ایک ٹیچر نے لڑکوں سے پوچھا: ’’تم نے مناظرہ سنا تھا؟‘‘ سکول کے اکثر طلبا مناظرہ سننے گئے تھے۔’’تم بتاؤ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا یا نہیں ؟‘‘ صرف دو تین لڑکوں نے کہا کہ حضور کو غیب کا علم تھا، ان کے علاوہ تمام لڑکوں نے یہی جواب دیا کہ حضور کو غیب کا علم نہیں تھا۔ ٹیچر نے کہا: ’’حقیقت یہی ہے حضور کو غیب کا علم نہیں تھا۔‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’کیا تم نے یہ نہیں پڑھا کہ ایک قبیلے کے لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو اپنے ساتھ لے گئے کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے خود بھی قرآن پڑھیں گئے اور اپنے بچوں کو دین کی تعلیم بھی دلائیں گے، لیکن انھوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کیا تھا اور ان صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو شہید کر دیا تھا۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتا تو وہ صحابہ کو ان دھوکے بازوں کے ساتھ کیوں بھیجتے؟ اگر اب بھی تمھارا جواب یہ ہے کہ حضور غیب جانتے تھے تو ان صحابہ کو بچانے کے بجائے، قتل کرنے میں(نعوذ باللہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل تھے؟‘‘ یہ الفاظ سن کر ساری کلاس میں شور مچ گیا: ’’حضور کو غیب کا علم نہیں تھا، حضور کو غیب کا علم نہیں تھا ..... ‘‘ بھٹی صاحب! یہ چند باتیں یاد رہ گئیں اور بہت کچھ بھول گیا۔ |