Maktaba Wahhabi

279 - 346
بھوجیانی ایک ضروری کام سے گوجراں والا تشریف لے گئے تو مولانا حافظ محمد یوسف صاحب گکھڑوی کے ہاں سے یہ روح فرسا خبر ملی کہ مولانااحمد الدین گکھڑوی آج تقریباً چار بجے وفات پاگئے ہیں۔حافظ صاحب موصوف نے فرمایا کہ میرے گکھڑ جانے پر جنازے کا پروگرام بنایا جائے گا۔مولانا نے مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا جنازہ بروز جمعہ بعد نماز عصر پڑھا جائے تا کہ مولانا کے دور دراز کے عقیدت مند بھی شریکِ جنازہ ہو سکیں۔ واپسی پر مولانا عطاء اللہ صاحب راقم کے ہاں مصری شاہ تشریف لائے اور ہم دونوں نوبجے رات میاں عبدالمجید صاحب کی کوٹھی پہنچے، تاکہ فون کے ذریعے احباب کو اطلاع پہنچا دی جائے۔ادھر مولانا حافظ محمد یوسف صاحب نے فون پر میاں عبدالمعید صاحب کو بتا دیا کہ جنازہ جمعے کے دن بعد نمازِ عصر ہو گا۔چنانچہ ہم نے شیخ محمد اشرف، میاں فضل حق وغیرہ سے فون پر رابطہ پیدا کرکے بہت سے احباب کو پروگرام سے مطلع کردیا۔شیخ محمد اشرف صاحب نے روز ناموں میں بھی خبر بھیج دی۔میاں عبدالمعید صاحب نے لائل پور، راولپنڈی، سیالکوٹ، اوکاڑہ اورجہاں تک ہوسکا دیگر مقامات میں اطلاعات دے دیں اور جمعے کے دن صبح راقم نے لاہور کی تقریباً سب مساجد میں اطلاع دے دی تاکہ خطبوں میں اعلان ہو سکے۔چنانچہ مقررہ وقت پر ہزاروں کی تعداد میں احبابِ جماعت اور دیگرحضرات نے مولانا کے جنازے میں شرکت فرمائی۔ مولانا احمدالدین صاحب کئی ماہ سے صاحبِ فراش تھے۔آپ کی وفات سے علمی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا پر ہونا بہ ظاہر مشکل نظر آتا ہے۔مولانا مرحوم کی وفات جماعت اہلِ حدیث کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے۔وہ بہترین خطیب، اچھے مدرس اور کامیاب مناظر تھے۔ان کا استدلال اتنا زوردار ہوتا تھا کہ مدِمقابل اسے توڑ نہیں سکتا تھا۔ان کے مناظرے عیسائیوں، آریوں، مرزائیوں، منکرینِ حدیث،
Flag Counter