مقلدین وغیرہ سب سے ہوئے۔مولانا کو توحید و سنت سے انتہائی محبت اور شرک وبدعت سے شدید نفرت تھی۔ان کی حق گوئی وبے باکی ضرب المثل تھی۔مداہنت اور مصلحت اندیشی کے یکسر خلاف تھے۔غالباً یہی وجہ تھی کہ کسی ایک جگہ جم نہ سکے اور اپنی سیمابی طبیعت کے باعث اس شعر کا مصداق رہے ؎ جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈو بے اِدھر نکلے مولانامرحوم نے فرمایا تھا کہ وہ تعلیمی مراحل طے کر کے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی خدمت میں امرتسر گئے اورمولانا امرتسری مرحوم کی جوہر شناسی نے مسِ خام کو کندن بنا دیا۔تفصیلی حالات تو مولانا کے ہم عصر بزرگ ہی بتا سکتے ہیں، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نور حسین گر جاکھی اور مولانا احمدالدین صاحب کی تبلیغی جوڑی مولانا امرتسری نے ہی ترتیب دی تھی، جس نے مسلکی میدان میں پورے ہندوستان میں اپنی تقریروں اور مناظروں سے تہلکہ مچا دیا۔مولانا گرجاکھی کی وفات کے بعد تو حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد الدین صاحب بجھے بجھے سے رہتے تھے۔ مولانا مرحوم نے وفات سے ایک ہفتہ قبل راقم کو خط لکھا کہ تم آکر مل جاؤ۔چنانچہ حسب الحکم بندہ حاضر ہوا اور عرض کی: حضرت! آپ نے کیسے یاد فرمایا؟ فرمانے لگے کہ میری عمر کے آخری ایام میں تم نے جس اخلاص کا ثبوت دیا ہے، میرا بار بار ملنے کو جی چاہتا تھا۔دل اداس تھا۔تمھیں خط لکھوا دیا۔تم آگئے،طبیعت کو سکون ہوگیا۔فالحمد للّٰه علیٰ ذلک۔ مختلف باتیں ہوئیں۔علما کی نئی پود کا شکوہ فرماتے رہے کہ علم کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور ہم ایسے لوگوں سے استفادہ نہیں کرتے،حالاں کہ ہماری باتیں ہمارے |