اور وہ پادری ٹھاکر داس کی کسی کتاب کے خلاف تھا۔مولانا مرحوم نے وہ مسودہ انہی مولانا عبدالواحد سے املا کرایا تھا۔مسودہ کتابی شکل میں چھپوانے کے لیے حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی خدمت میں لاہور بھجوادیا گیا تھا… معلوم نہیں مسودہ کتنے صفحات پر مشتمل تھا۔وہ مسودہ شائع نہیں ہوا۔یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ سینتیس(37)برس قبل کا وہ مسودہ اب کہاں ہے اور کس حال میں ہے یا کہیں گم ہو گیا ہے۔ اب مولانا احمد الدین گکھڑوی کے متعلق مولانا محمد سلیمان انصاری کا مضمون پڑھیے۔یہ مختصر سا مضمون ’’آہ! مولانا احمدالدین‘‘ کے عنوان سے 27 جون 1973ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں چھپا تھا۔ مولانا محمد سلیمان انصاری اس وقت ’’الاعتصام‘‘ کے عملہ ادارت کے رکن تھے۔وفات سے چند روز پیشتر مولانا احمدالدین مرحوم نے خاص طور سے خط لکھ کر انھیں گکھڑ بلایا تھا اور فرمایا تھا کہ آپ سے ملنے کو بڑا جی چاہ رہا تھا۔ مولانا محمد سلیمان انصاری نے30 اگست 1998ء کو وفات پائی۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مولانا محمد سلیمان انصاری لکھتے ہیں : ضلع گوجراں والا کے مردم خیز خطے کو ہمیشہ یہ فخر رہا ہے کہ یہاں بہت سے اعاظم رجال پیدا ہوئے۔انہی میں سے ایک مولانا احمد الدین صاحب گکھڑوی تھے جو مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عبدالمجید سوہدروی اور مولانا نور حسین گرجاکھی رحمہم اللہ کے تبلیغی رفیق کار اور اس سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی تھے اور آخر ایک طویل عرصے تک بیمار رہ کر راہیِ ملکِ عدم ہوگئے۔إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ مورخہ 14 جون(1973ء)کو بروز جمعرات مولانا محمد عطاء اللہ حنیف |