3۔تیسرا واقعہ:جنوری 1964ء میں راہوالی کی مرکزی جامع مسجد اہلِ حدیث کی تعمیر شروع تھی۔ایک شخص مستری ابراہیم ان دنوں مسجد میں کام کر رہے تھے۔ان کا تعلق ٹھٹھہ چھینہ سے تھا۔ حافظ محمد یوسف گکھڑوی رحمہ اللہ جب کبھی شہر سے باہر جاتے تو خطبہ جمعہ کے لیے مولانا محمد رفیق سلفی کو حکم دیتے اوروہ گکھڑ میں حافظ صاحب کی مسجد میں(جو انھوں نے اپنے مکان کے اوپر بنائی تھی)خطبہ ارشاد فرماتے۔ایک مرتبہ حافظ صاحب کے حکم کے مطابق جنوری 1964ء کو مولانا رفیق سلفی صاحب جمعہ پڑھا رہے تھے کہ مولانا احمد الدین صاحب آکر مسجد میں بیٹھ گئے۔نمازِ جمعہ کے بعد مولانا رفیق صاحب نے عرض کی کہ حضرت آپ پہلے تشریف لاتے تو آپ خطبہ ارشاد فرماتے۔فرمایا: آج میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں آپ کا خطبہ سنوں۔ اس کے بعد فارغ ہو کر جب مولانا محمد رفیق صاحب سائیکل پر واپس راہوالی آئے تو مستری ابرہیم نے ان سے پوچھا کہ آج مولانا احمد الدین صاحب کہاں ہوں گے؟ مولانا نے بتایا کہ آج گکھڑمیں موجود ہیں۔مستری صاحب نے کہا کیا وہ آج ہمارے گاؤں ٹھٹھہ چھینہ چلے جائیں گے؟ وہاں چار پانچ روز سے سیالکوٹ سے ایک پادری آئے ہیں اور وہ روزانہ چیلنج کرتے ہیں کہ کوئی مسلمان جس مسئلے پر چاہے میرے ساتھ مناظرہ کر لے۔ مولانا رفیق سلفی صاحب اسی وقت واپس گکھڑ گئے اور مولانا احمد الدین صاحب سے بات کی تو مولانا فرمانے لگے پادری چیلنج کرتاہے تو چلو اسی وقت چلتے ہیں۔وہ کیا یاد کرے گا۔چنانچہ مغرب کے وقت وہ ٹھٹہ چھینہ میں پہنچ گئے۔ مولانا نے مغرب کے بعد نمازیوں سے کہا کہ پادری کے سامنے کوئی شخص |