تھے۔مولانا احمد الدین نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے تو وہ ستر(70)صحابہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بئر معونہ میں بھیجے تھے، کیا وہ جان بوجھ کر بھیجے تھے تاکہ ہلاک ہوجائیں،(نعوذ باللّٰه) اس پر مولانا عنایت اللہ نے کہا، اس سلسلے میں میری تھوڑی سی غلطی ہے تاہم میں حق پر ہوں۔ پھر اس تھانے دار نے جو انتظام کے لیے آیا تھا کہا کہ باقی باتیں تھانے میں ہوں گی۔اب مولانا احمد الدین اور مولانا عنایت اللہ صاحب تھانے پہنچ گئے۔تھانے میں جب دوبارہ مناظرہ شروع ہوا تو مولوی عنایت اللہ صاحب نے کہا کہ میں ’’نور من نور اللہ‘‘ کے الفاظ قرآن سے دکھاتا ہوں۔وہ قرآن میں غورسے دیکھتے رہے۔دو گھنٹے تلا ش کرنے کے بعد بھی وہ قرآن سے ’’نور من نور اللّٰه‘‘ کے الفاظ نہ دکھا سکے۔تھانے دار نے مولوی عنایت اللہ صاحب سے کہا کہ مولانا آپ جھوٹے ہیں۔یہ لکھ کر دیں کہ یہ الفاظ قرآن میں نہیں ہیں اور میں غلطی پر ہوں، لیکن مولوی عنایت اللہ نے لکھ کر تو نہ دیا، البتہ یہ تسلیم کیا کہ میں شکست کھا چکا ہوں۔لکھ کر دوں گا تو میرا مذہب جھوٹا ثابت ہوتا ہے جب کہ میرا مذہب صداقت پر مبنی ہے۔ مولوی عنایت اللہ نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ’’نور علیٰ نور‘‘ جو قرآن میں موجود ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا پیغمبر نور پر نور ہے۔مولانا احمد الدین صاحب نے کہا پہلے ’’نور من نور اللہ‘‘ کا مطلب واضح کریں، پھر دوسری بات کریں۔’’نور علیٰ نور‘‘ کے معنی روشنی پر روشنی کے ہیں، لیکن ’’نور من نور اللّٰه‘‘ کا مطلب رب کے نور میں سے نور ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’لم یلد ولم یو لد‘‘(یعنی نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ اس کو کسی نے جنا)، پھر مولوی عنایت اللہ نے کہا کہ میں اس معاملے میں بھی شکست تسلیم کر تا ہوں، کیوں کہ میرے |