Maktaba Wahhabi

241 - 346
میں بنانا تھے جو بنا دیے گئے۔جب فرم کا افسر آیا اور اس نے توے سیمپل کے مطابق چیک کیے تو دو چار توے مقررہ سائز سے تھوڑے سے کم تھے۔وہ توے اس نے نکال دیے۔اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ یہ اس سائز سے کم ہیں جو آپ کو دیا گیا ہے۔مولانا فرماتے ہیں کہ ہم نے کہا: ذرہ سی کمی سے کیا فرق پڑتاہے۔اس انگریز نے کہا کہ دیے گئے سائز سے کم ہو یا زیادہ اس سے فرق پڑتا ہے۔انگریز ی فرم کے کارندے تو مال لے کر چلے گئے۔لیکن مولانا کہتے ہیں کہ میں سوچ میں پڑ گیا کہ وہابی بھی تو یہی کہتے ہیں کہ دین وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کے حکم کے مطابق ہو، نہ کم نہ زیادہ۔بس یہ بات تھی کہ میں دین کا علم سیکھنے کے لیے کمر بستہ ہو گیا۔اب میں دن کے بارہ بجے تک کام کرتا، اس کے بعد مولانا سلطان احمد صاحب نت کلاں والے کے ہاں چلا جاتا اور رات گئے تک پڑھتا رہتا۔ یاد رہے مولانا سلطان احمد صاحب رحمہ اللہ استادِ پنجاب حضرت حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔حافظ صاحب مرحوم نے ان کو اپنی خود نوشت سوانح عمری دی تھی اور فرمایا تھا کہ اسے پنجابی نظم میں منتقل کریں۔یہ خود نوشت سوانح پنجابی اشعار میں اب بھی موجود ہے اور آج تک حافظ صاحب کے متعلق جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں اسی سے ماخوذ ہیں۔ مولانا احمد الدین کی طبیعت میں یبوست نہ تھی، بلکہ وہ خوش طبع تھے۔اسی باغ والی مسجد کے خادم حافظ نور حسین تھے جو نابینا تھے۔انھوں نے ان سے کہا کہ مولانا آپ کی دعوت ہے۔مولانا کہنے لگے: ’’حافظ دیکھو دعوت نوری ہونی چاہیے۔‘‘ انھوں نے پوچھا: ’’نوری سے کیا مراد ہے؟‘‘ فرمایا: ’’اس میں حلوا ہو، دیسی گھی ہو، بادام پستہ ہو، تب نوری ہوتی ہے۔‘‘
Flag Counter