کھا لیا ہے۔کوئی اور چیز ان کے سامنے رکھی جاتی تو بڑی مشکل سے تھوڑی سی کھاتے۔ مولانا کی زندگی ہی میں ابا جی مرحوم کی کوشش سے جامع مسجد اہلِ حدیث الہ آباد بنی۔ہر سال اہلِ حدیث کانفرنس کا انعقاد ہوتا،جس کا سارا پروگرام حضرت مولانا حافظ محمد شریف سیالکوٹی رحمہ اللہ ترتیب دیتے۔نماز جمعہ سے رات گئے تک علما کے خطابات ہوتے۔ایسے ہی ایک پروگرام میں مولانا احمد الدین کی تقریر تھی۔دن کا وقت تھا۔حاضری تو کافی تھی، لیکن مولانا مرحوم کے خیال میں لوگ توجہ سے بات سن نہیں رہے تھے۔انھوں نے فرمایا: ’’لوگو میری بات توجہ سے سنو! جب میں نہیں ہوں گا تو آپ لوگ یاد کریں گے۔‘‘ غرض مولانا مرحوم سادگی، انکسار، خوش طبعی اور علم کی پختگی اور دلائل کی روانی، موضوع کے حق کی ادائیگی اور مسلک حقہ اہلِ حدیث کی تبلیغ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔تکبر، انانیت، بڑا پن، علم کا ادعا اور اپنے آپ کو نمایاں کرنا جلسے میں یہ خواہش کہ ان کی شان کے برابر مقام ملے، دوسرے کی بات نہ سننا، باوجود بہت بڑے مناظر ہونے کے ایسی کوئی بات ان میں نہ تھی۔ دین کی تکمیل کے متعلق وہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ ایک گلاس میز پر رکھا جائے، اس میں کوئی مشروب ڈالاجائے، جس سے وہ بالکل بھر جائے، یہاں تک کہ اس میں اگر ایک قطرہ اور ڈالا جائے تو وہ قطرہ گلاس سے باہر نکل جائے گا یا ایک قطرہ اس سے نکالا جائے تو کم ہو جائے گا۔فرمایا کرتے ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ کے یہی معنی ہیں۔اسلام اتنا مکمل ہے کہ اس میں کمی بیشی کی کوئی گنجایش نہیں۔ چند سال پہلے ’’الاعتصام‘‘ میں کسی صاحب کا مولانا کے متعلق ایک مضمون چھپا تھا، جس میں صاحبِ مضمون نے مولانا سے نقل کیا تھا کہ وہ لوہے کا کام کرتے تھے۔ایک دفعہ انھیں کسی انگریزی فرم نے تو ے بنانے کا آرڈر دیا۔توے کافی تعداد |