والی مسجد اہلِ حدیث کی انجمن کے صدر ہیں اور جماعت اور مسلک کی خدمت کے لیے ہر وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ ایک اور واقعہ مولانا احمد الدین مرحوم نے سنایا جس کا مطلب یہ ہے کہ مناظرے میں مخالف فریق اپنے مدِمقابل کی توجہ اصل موضوع سے ہٹا کر دوسری طرف مبذول کرانے کی کوشش کرتا ہے۔مناظر کو چاہیے کہ اپنے موضوع میں رہے اور اس کی ان حرکات پر توجہ نہ دے۔فرمایا کہ ایک دفعہ میرا مناظرہ بریلوی مکتبِ فکر کے عالم مولوی محمد عمر اچھروی کے ساتھ تھا۔میرے معاون مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم تھے۔ مناظرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علمِ غیب پر تھا۔مخالف فریق کسی اور بات کے دلائل دے رہا تھا اور میں کہہ رہا تھا کہ موضوع کے متعلق بات کی جائے۔مولانا سلفی مرحوم مجھے چپکے سے کہنے لگے’’ احمد دین! جو بات صحیح ہے اسے تو مانو‘‘۔میں نے کہا مولانا آپ چپ رہیں۔جب اللہ تعالیٰ نے مناظرے میں ہمیں کامیابی دی تو بعد میں کھانے پر میں نے مولانا سلفی سے عرض کیا کہ اگر اس کی درست بات کو درست کہہ دیتے تو اسی وقت عوام کی طرف سے تالی بج جاتی کہ وہابی ہار گئے۔ مولانا احمد الدین مرحوم کی طبیعت نہایت سادہ تھی۔ان کا لباس تھا کھدر کا کرتا اور کھدر کا تہبند۔پنڈلیاں نظر آتی تھیں۔سر پر ہمیشہ کھدر کا صافہ(پرنا)باندھتے تھے۔کسی قسم کا تکلف نہ تھا۔اکثر اوقات انھیں ابا جی مغفور(حکیم عبدالمجید رحمہ اللہ)اپنے ساتھ گھر لے آتے یا کسی جلسے میں جانے کے لیے وہ خود ہمارے گھر تشریف لاتے تو ابا جی مرحوم ان کے ساتھ جہاں وعظ کا پروگرام ہوتا چلے جاتے۔مولانا کو کھانا دیا جاتا تو ظاہر ہے، مہمان کے لیے کچھ اہتمام تو کیا جاتا ہے۔لیکن مولانا روٹی کے اوپر ہی گوشت کی ایک بوٹی رکھتے اور اسی کے ساتھ روٹی ختم کر دیتے۔پھر فرماتے کہ ضرورت کے مطابق |