کے مرزا غلام احمد نے فلاں کتاب کے فلاں صفحے پر ڈول کو بوکا لکھا ہے۔‘‘ پھر مرزائی مقرر ایسا لاجواب ہوا کہ اس بات کو دوبارہ نہ دہرایا۔ ● ایک شخص کو طلاق ثلاثہ کا مسئلہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ اس کی مثال ایسی ہے کہ فجر کے وقت کوئی آدمی پانچوں نمازیں فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اکٹھی ادا کرے۔یہ نماز فجر کی ہوگی، باقی نمازیں اپنے اپنے وقت پر ہوں گی۔اسی طرح تین طلاقیں ایک بار دینے سے ایک ہی واقع ہوگی۔باقی اپنے وقت پر ایک ایک ماہ کے بعد واقع ہوں گی۔ ● ایک گھر میں کھانے کی دعوت پر فِرنی(سویٹ ڈش)کھاتے کھاتے مولانا ہنس پڑے۔میں نے عرض کیا آپ ہنسے کس بات پر ہیں ؟ فرمایا ’’میں الہامی کھانا کھا رہا ہوں۔مزرا غلام احمد کا الہام ہے کہ فِرنی بڑی اچھی شے ہے۔‘‘ ● مولانا کو اہلِ سنت کے مکاتبِ فکر احناف(دیوبندی وبریلوی)اور شیعہ کے عقائد و اعمال اور ان کی فقہی کتب پر عبور حاصل تھا۔تقریروں میں ان کے حوالے دیتے تھے۔غیر مسلموں، عیسائیوں، مرزائیوں اور ہندؤوں کی کتب کے صفحات کے صفحات ازبر تھے۔ان کے ساتھ مناظروں کے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔میری عمر چوں کہ اس زمانے میں چھوٹی تھی اس لیے بہت سی باتیں حافظے میں نہیں رہیں۔ ● جامع اہلِ حدیث امین پور بازار کی خطابت کے بعد قریباً دو سال تک مسجد مبارک منٹگمری بازار میں خطبہ اور صبح کا درس قرآن ارشاد فرماتے رہے۔فرمایا کرتے تھے کہ میں نے امین پور بازار کی مسجد میں توحید بیان کی، یہاں رسالت بیان ہوگی۔چنانچہ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اورسیرت وسوانح ان کاموضوع رہا۔شاید اسی دوران میں کتاب ’’سیرتِ سید العالمین‘‘ بھی تصنیف فرمائی۔ ● منٹگمری بازار کے بعد گلبرگ(سی)کی مسجد الفردوس میں سال ڈیڑھ سال خطبہ |