تھی)دو روز رہا۔ ● ایک دفعہ مولانا گکھڑوی نے اپنے دوست اور تبلیغی ہم سفر مولانا نور حسین گرجاکھی کو بھی فیصل آباد آنے کی دعوت دی، چنانچہ انھوں نے بھی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔رات کو سانگلہ ہل کے قریب ہنجلی گاؤں میں مولوی محمد عمر اچھروی اور مولوی عنایت اللہ سانگلوی سے مناظرہ طے تھا۔یہ دونوں بریلوی عالم صبح سے شام تک دن بھر اہلِ حدیث کو مناظرے کے لیے للکارتے رہے۔مگرجب شام کو مولانا گکھڑوی، مولانا نور حسین اور حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حافظ عبدالقادر وہاں پہنچے تودونوں فوراً گاؤں چھوڑ گئے اور رات کو ان علما نے تقریریں کیں۔میں بھی والد صاحب کے ساتھ وہاں گیا تھا۔ ● مولانا گکھڑوی نے ایک مرتبہ مرزائی مناظر سے شملہ میں مناظرہ کیا تھا۔اس مناظرے کا ذکرکرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس مناظرے میں ہمارے صدر مولانا عبدالمجید سوہدروی تھے اور دوسری جانب مرزائی مناظر سلیم تھا۔طے پایا کہ وہاں کے ماحول کے مطابق اردو میں گفتگو اور تقریریں ہوں گی۔مولانا فرماتے ہیں:’’میں چوں کہ اردو کے بجائے پنجابی میں تقریر کرنے کا عادی ہوں، اس لیے اردو میں تقریر کرتے ہوئے کسی وقت پنجابی الفاظ زبان سے نکل جاتے جب کہ مرزائی مناظر فر فر اردو بول رہا تھا۔اپنی زبان دانی کے گھمنڈ میں اس نے ہمارے صدر مولانا عبدالمجید سوہدروی سے کہا کہ آپ کو پنجاب سے کوئی ایسا مناظر نہیں ملا جو اردو بول سکے۔آپ کا مناظر اردو بولتے بولتے بیچ میں پنجابی لے آتا ہے۔بات تو اس کی درست تھی، مگر مولانا گکھڑوی نے جواب میں فرمایا: ’’بھئی پنجاب کا خطہ ہی ایسا ہے، یہاں کے نبی کو اردو نہیں آتی۔آپ |