کے پاس آجاتے، جہاں کاروبار کے ساتھ ساتھ مولانا سے میل جول کرنے والوں اور مسئلے مسائل پوچھنے والوں کا آنا جانا رہتا۔مولانا گکھڑوی کے جگری دوست مولانا علی محمد صمصام تھے، جن کی رہایش فیصل آباد سے چند میل کے فاصلے پر چک نمبر 39 نزد ستیانہ بنگلہ میں تھی۔وہ بھی تبلیغی پروکَراموں میں آتے جاتے ہمارے غریب خانے پر قیام فرماتے۔روپڑی برادران حافظ محمد اسماعیل اور حافظ عبدالقادر بھی پہلے والد صاحب سے آکر ملتے اور یہاں سے آگے جہاں شہر میں جانا ہوتا،جاتے تھے۔جلسے سے فراغت کے بعد بھی ان کا قیام ہمارے ہاں ہوتا۔ ● مولانا احمد الدین کے قیام کی وجہ سے دور دراز سے آنے والے علماکا قیام بھی ہمارے ہاں رہتا،جن میں مولانا عبدالمجید سوہدروی، حافظ محمد اسماعیل ذبیح، مولانا محمد رفیق خان پسروری، مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری، مولانا سید عبدالغنی شاہ کامونکے والے شامل تھے۔والد صاحب اور والدہ ان کی خدمت یعنی کھانے پینے کا پورا حق ادا کرتے اور عقیدت و احترام کے ساتھ ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔یہ علما رات گئے بھی تشریف لاتے تومیرے والد ین کو ان کے اس وقت آنے پر بھی کوئی ملال نہ ہوتا، بلکہ خوشی کا اظہار کرتے۔ ● مولانا احمدالدین اپنے اساتذہ خصوصاً مولانا ثناء اللہ امرتسری(جو مناظرے میں ان کے استاد تھے)اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا تذکرہ بڑے خوب صورت انداز میں کرتے۔مولانا گکھڑوی کی دعوت پر مولانا سیالکوٹی 1952ء میں فیصل آباد تشریف لائے۔انھوں نے جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ان کا قیام صدر انجمن مولانا حکیم نور دین کی کوٹھی(کوتوالی روڈ پر جہاں حکیم صاحب کے صاحب زادے میر عبدالقیوم کی رہایش |