حرف کی غلطی بھی کرے تو فوراً مقتدیوں میں سے کوئی نہ کوئی وہی آیت صحیح الفاظ میں پڑھ کر سنا دیتا ہے تاکہ کتاب اللہ میں ایک حرف کی بھی غلطی نہ ہونے پائے۔یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر تاحال اہلِ اسلام میں جاری ہے۔ دلیلِ چہارم: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حفاظتِ قرآن کی ایک عجیب تدبیر قائم کردی۔آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ دونوں کو حکم دیا کہ قیامِ رمضان کی گیارہ رکعات میں صحابہ کی بڑی جماعت کے امام بن کر رات کو قرآن سنائیں۔ (مشکاۃ باب قیام رمضان) پھر صحابہ میں سے سیکڑوں ایسے صحابہ تھے کہ جنھوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن حفظ کیا تھا تا کہ کسی قسم کی کمی بیشی نہ ہونے پائے۔چنانچہ اس زمانے سے لے کر تاحال یہی دستور جاری ہے کہ ماہِ رمضان میں تمام ملکوں کے ہر ضلعے، ہر شہر اور ہر قصبے میں سارا مہینا مسلمانوں کی بہت بڑی جماعت کو حافظ صاحبان امام بن کر بہ آوازِ بلند قرآن سناتے ہیں اور جماعت میں بھی کئی حافظ ہوتے ہیں۔کیا مجال کہ امام ایک حرف یا زیر زبر کی بھی غلطی کرے۔ پس خلاصہ یہ کہ سیکڑوں صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی قرآن یاد کرلیا تھا اور صحابہ سے ان کے سیکڑوں شاگردوں نے اسی طرح قرآن یاد کیا جیسا کہ خود صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کیا تھا۔مسلسل اسی طرح ہر زمانے میں لاکھوں حفاظ، قرآن مجید یاد کرتے چلے آئے اور قیامت تک ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔صحابہ میں سے اتنے حافظِ قرآن ہوگئے تھے کہ وہ ایک بڑے لشکر کی تعداد میں تھے، جو لڑائیوں میں بھیجے جاتے تھے۔ جس کتاب کے حفظ کا یہ معجزانہ اہتمام کیا گیا ہو اور خاص قواعد وضوابط مقرر |