شروع کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور اعتقاد والے مسلمان اسلام سے بالکل انکار تو نہیں کرتے، لیکن کچھ نہ کچھ شکوک و شبہات کو اپنے دل میں جگہ دے دیتے ہیں۔ اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے حضرت مولانا کو اس پر آمادہ کیا کہ کوئی ایسی ایک کتاب ضرور لکھیں جو کہ ہر طبقے کے لیے یکساں مفید ہو۔چنانچہ یہ کتاب اپنے فن میں ایک الگ حیثیت رکھتی ہے، جس کو پڑھ کر ایک معمولی علم والا بھی عیسائیوں کو لا جواب کر سکتا ہے۔ پھر اس کتاب کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ پہلے ان اعتراضا ت کے جو کہ مخالفین قرآنِ پاک کی حفاظت پر کرتے ہیں، ٹھوس اور مدلل اور عام فہم جواب دیے گئے ہیں، اور ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کرآج تک ہر طرح کی کمی بیشی سے محفوظ ہے۔بعد ازاں بائبل کی خامیوں اور کمزوریوں کو اس کے اندر ہی سے مختلف طریقوں سے منظرِ عام پر لایا گیا ہے تاکہ مخالفین کو انکار کی گنجایش ہی نہ رہے۔‘‘ عنایت اللہ برہان الحق کے فاضل مصنف نے اپنے مقدمے میں اور مولانا محمد اسماعیل صاحب نے تقریظ میں اور ناشرِ کتاب عنایت اللہ نے ’’عرِض ناشر‘‘ میں کتاب کی تصنیف و اشاعت کی وجہ اور اس کے مندرجات کی تفصیل خوب صورت انداز میں بیان کردی ہے۔افسوس ہے، یہ تینوں بزرگانِ گرامی وفات پاچکے ہیں۔ جناب عنایت اللہ صاحب جنھوں نے یہ کتاب مولانا سے لکھوائی اور پھر خاص طور سے اس کی اشاعت و طباعت کا اہتمام کیا، وہ مولانا ممدوح کے حقیقی بھانجے اور فائن کلاتھ ہاؤس گوجراں والا کے مالک تھے۔ |