انھوں نے 28 اکتوبر1966 ء کو چک نمبر20 ایم بی(ضلع سرگودھا)میں وفات پائی۔ یہ مناظرہ آج سے 73 برس پہلے 1937ء میں ہواتھا۔میرا خیال ہے کہ دو آدمیوں کے سوا اب کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا، جس نے یہ مناظرہ دیکھا ہو جو مولانا حافظ عبدالستار دہلوی اور مولانا احمدالدین گکھڑوی کے درمیان ہوا تھا، وہ دو آدمی ہیں مولانا معین الدین لکھوی اور یہ فقیر! مولانا معین الدین لکھوی بیمار ہیں [1]اور یہ فقیر اللہ کی مہربانی سے تندرست ہے اور مناظرے کے تمام واقعات کا عینی شاہد!! مناظرے کی یہ روداد جومیں نے بیان کی ہے آج سے 73 برس قبل کی ہے۔میری عمر اس وقت دس گیارہ برس کی تھی۔مولانا عارف جاوید محمدی صاحب نے اواخر جنوری 2011ء کومجھے کویت سے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے اخبار ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘(امرتسر)کے 20 اگست 1937ء کے شمارے کے ایک مضمون کی فوٹو کاپی بھیجی ہے۔یہ مضمون اخبار ’’اہلِ حدیث‘‘ کے صفحہ 6 کے دو کالموں میں شائع ہوا ہے جو استاذِ پنجاب حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی کا تحریر فرمودہ ہے۔حضرت مولانا لکھوی مشہور معلم اور نہایت متقی بزرگ تھے۔ان سے ہزاروں طلبا نے اکتسابِ فیض کیااور علم وعمل کے اونچے مرتبے پر فائز ہوئے۔جماعت غرباے اہلِ حدیث کے علماے کرام صدارت یا امارت کے بجائے امامت کے قائل ہیں، یعنی اپنے سربراہ کو ’’امام‘‘ کے لفظ سے پکارتے ہیں، اس لیے دورِ گزشتہ میں عام لوگ انھیں ’’امامیہ‘‘ کہا کرتے تھے اور ان کی طرف ’’امامیہ‘‘ کی نسبت غلط نہیں ہے۔حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی نے اپنے اس مختصر مضمون کا عنوان ’’جماعت امامیہ دہلی اور اہلِ حدیث کا |