حضرت حافظ عبدالستار دہلوی رحمہ اللہ نے صرف 61برس عمر پائی اور 29 اگست 1966ء کو سفرِ آخرت اختیار کیا۔ ’’کاروانِ سلف‘‘ میں اس فقیر نے مولانا عبداللہ اوڈ کے واقعاتِ زندگی بھی خاصی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔انھوں نے پہلے منڈی صادق گنج(ضلع بہاول نگر)کے اس مدرسے میں تحصیلِ علم کی جو وہاں علماے غزنویہ نے جاری کیا تھا۔پھر امرتسر کے مدرسہ غزنویہ میں مولانا عبدالغفور غزنوی، مولانا نیک محمد اور دیگر حضرات سے کسبِ فیض کیا۔بعد ازاں دہلی جاکر مولانا عبدالوہاب کے مدرسہ دارالکتاب والسنہ میں داخلہ لیا اور مولانا مرحوم سے سندِ فراغت لی۔وہ پنجاب کی اوڈ برادری کے سربراہ تھے۔جماعت غرباے اہلِ حدیث(پنجاب)کے بھی امیر تھے۔ان کامسکن فاضلکا بنگلہ(ضلع فیروزپور)تھا۔وہاں اوڈ راجپوت کافی تعداد میں آباد تھے۔مولانا عبداللہ اوڈ نے اوڈوں سے اس اجتماع پر حملہ کرایا تھا، جس میں مولانا حافظ عبدالستار دہلوی اور مولانا احمد الدین گکھڑوی مناظرہ کر رہے تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب میں حضرت حافظ صاحب کا مناظرہ ناکام ہو۔اس سے ان کی اہانت کا پہلو نکلتاتھا۔پھر اس ناتمام مناظرے کی کارروائی ان حضرات نے اپنے اخبار ’’صحیفہ اہلِ حدیث‘‘(دہلی)میں کس انداز میں شائع کی، اس کامجھے علم نہیں۔لیکن یہ معلوم ہے کہ اس مناظرے کے بعد حضرت حافظ صاحب نے ان دیہات میں تبلیغی دورے کا سلسلہ ختم کر دیا تھا اور وہ واپس دہلی تشریف لے گئے تھے۔ مولانا عبداللہ اوڈ میرے مہربان تھے۔قیامِ پاکستان سے قبل بھی میرے ان سے مراسم تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں لاہور آتے تو ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے دفتر بھی تشریف لاتے اور اس فقیر کا سلام قبول فرماتے۔ |