Maktaba Wahhabi

82 - 135
انہیں شمار کرنا محال ہے۔ امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ اس کثرت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی سائل سوال کرے کہ ان ائمہ کرام کے کثرت اختلاف کی کیا وجہ ہے؟ اور ان میں سے ہر ایک نے قراء ت میں اپنا علیحدہ اختیار کیوں منتخب کیا ہے؟ جواب: … تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان ائمہ کرام میں سے ہر ایک نے، کئی کئی اساتذہ سے مختلف قراءات پڑھیں۔ اور ان سے جو پڑھا، اسے آگے نقل کر دیا۔ وہ اپنی زندگی کے سنہری دور میں رہتے تھے اور لوگوں کو وہی پڑھاتے تھے، جو خود پڑھتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم ان کے پاس ایسی قراء ت پڑھتا، جو ان سے وارد نہ ہوتی تھی، تو وہ ان من جملہ قراءات میں سے ضرور ہوتی تھی، جو انہوں نے اپنے اساتذہ سے پڑھی ہوئی تھیں، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ امام نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ستر (۷۰) تابعین سے قراء ت پڑھی ہے، جس وجہ پر دو مشائخ متفق ہو جاتے ہیں، میں اسے اختیار کرلیتا ہوں اور جس پر ایک شیخ منفرد ہوتا ہے، اسے ترک کر دیتا ہوں۔[1] دکتور عبدالصبور شاہین نے اس کثرت کو ملاحظہ کیا اور اس سے درج ذیل نتائج مستنبط کیے ہیں: ۱۔ یہ قراءات شاذہ میں ہے۔ ۲۔ یہ چند معین حروف کے میدان میں محصور ہے۔ ۳۔ یہ سب مروی ہے۔ [2] امام زمخشری رحمہ اللہ اور امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی رائے ایک خاص باب میں ہے، وہ قواعد نحویہ کی قراء ت پر تقدیم کے قائل ہیں۔ اور یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں اختلافی ہے۔ اکثر بصری نحویوں اور زمخشری رحمہ اللہ و ابن قتیبہ رحمہ اللہ جیسے ان کے چند متبعین نے قواعد نحویہ کی مخالفت کی بنیاد پر، بعض قراءات کو رد کر دیا ہے۔ جبکہ متاخرین نحویوں نے متقدمین کے اس موقف کا انکار کیا ہے، اور انہوں نے متقدمین کی رد کردہ قراءات کو قبول کرلیا ہے، اور قراءات قرآنیہ
Flag Counter