حضرات میں اتنا شدید تعصب ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کی اقتداء کی اجازت نہیں دیتے۔اس کے علاوہ بھی کئی قبیح اور نامناسب باتیں کرتے ہیں۔ان لوگوں پر افسوس ہے یہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے۔اگر امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہا اللہ زندہ ہوتے تو ان کی ان حرکات کے خلاف سخت ناپسندیدگی اور ان سے بیزاری کا اظہار فرماتے ہیں۔میں نے لا تعداد آدمیوں کو دیکھا ہے وہ آستینیں چڑھا کر امام شافعی کی مخالفت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ بلا تسمیہ ذبیحہ کو حلال سمجھتے ہیں۔احناف پر یہ الزام لگایا جاتا ہے وہ شرم گاہ کومس کرتے ہیں اور بے وضو نماز پڑھتے ہیں اور مالکی بسم اللہ کے بغیر نماز پڑھتے ہیں۔حنبلی زوال سے پہلے جمعہ پڑھتے ہیں اپنا حال یہ ہے کہ وہ ترک نماز کو گوارا کرتے ہیں گھر کے لوگوں کو نماز کے ترک پر سرزنش نہیں کرتے حالانکہ شوافع،موالک،حنابلہ بے نماز کے متعلق قتل کا فتویٰ دیتے ہیں۔افسوس ہے کیا یہ لوگ فقیہہ ہیں ایسے فقیہوں کو خدا تعالیٰ تباہ کرے تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ان فرعی مسائل پر تو اتنا زور دیتے ہو اور ہزاروں اجماعی محرمات اور ناجائز ٹیکسوں کی پروا تک نہیں کرت اور نہ ہی تمہیں اس پر غیرت محسوس ہوتی ہے۔تمہاری غیرت کا سارا زور ابو حنیفہ اور شافعی کے اختلافات پر پڑتا ہے جس سے افتراق ہوتا ہے اور جاہل تم پر مسلط ہو جاتے ہیں عوام میں تمہاری کرکری ہوتی ہے۔بے وقوف تمہارے متعلق ایسی باتیں کرتے ہیں جو تمہارے احترام کے سرار منافی ہیں اور ہلاک ہوتے ہیں۔تمہارا گوشت زہریلا ہے بہر کیف تم اہل علم ہو ان امور کی وجہ سے تباہی کی طرف جا رہے ہو۔اللہ تمہیں علم اور علماء کے احترام سے نیکی کی توفیق دے اور ہمیں تعصب سے بچائے۔ علامہ تاشکبری زادہ نے اپںے وقت کے متعصب علما ء کو کس قدر درد انگیز لہجہ میں تنبیہ فرمائی اور ترک اقتداء اور اس میں شرائط کو ناپسندفرمایا ہے۔اب اکی اور پاکباز کا ارشاد سنیے جسے اللہ تعالیٰ نے صاف ذہن مرحمت فرمایا ہے۔ائمہ کے احترام کے ساتھ شریعت کے مصالح بھی اس کے پیش نظر ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے اسم گرامی کے نام سے علمی حلقوں میں کون واقف نہیں آپ سے دریافت کیا گیا کہ ایک حنفی وتر کی نماز میں یا جمع بین الصلوٰتین میں شافعی کی اقتداء کر سکتا ہے اور اسے اجازت ہے کہ ایسے مسائل میں وہ شافعی امام کی تقلید کرے۔ایسا کرنا حنفی |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |