آپ کے شیش محل کا امتحان ہو جائے کہ وہ کہاں تک مضبوط ہے جس کے سہارے پر دوسروں کی اقتداء حرام فرمائی جارہی ہے ۔ وہ سہارا سہارا ہے بھی یا نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ احناف کا مسلک پانی کے متعلق نہ روایتہ درست ہے نہ درایتہ نہ نصوص اس کی مئوید میں نہ عقل ۔ یہ مسلک محض عوام کی عقیدت مندانہ حمایت سے چل رہا ۔ تعجب ہوتا ہے کہ آپ حضرات کو اپنے مخالفین پر فتوی دینے کی جراَت کیسے ہوتی ہے ؟ ماء کثیر کی تعیین عشر فی العشر یعنی دہ در دہ کا انداز بالکل بے ثبوت ہے ۔ متاخرین حنفیہ نے یہ اندازہ گھڑ لیا ہے ۔ قرآن اور حدیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ۔ شارح وقایہ نے اسے ثابت کرنے میں جس قدر زور صرف کیا ہے اس کا اصل مطلب پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ اگر جناب نے اسے ثابت کرنے کی کوشش کی فرمائی تو تفصیلا عرض کیا جائے گا ۔ محی السنۃ کا قول پہلے ذکر ہو چکا ہے ۔ صاحب درالمختار صفحہ ۱۶ بھی امام محی النۃ سے اس باب میں متفق ہیں کہ یہ تحدید ثابت نہیں ۔ بلکہ امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہ سے بھی یہ ثابت نہیں ۔ ماء کثیر جاری غدیر وغیرہ کے متعلق ائمہ احناف میں کسی قدر اختلاف ہے بعض نے فرمایا ۔ جاری پانی وہ ہے جو تنکوں کو بہا کر لے جائے ، بعض نے فرمایا جس میں تکرار نہ ہو ۔ اسی طرح غدیر (تالاب ) کے متعلق ارشاد ہے ۔ جس کو ایک طرف سے اگر حرکت دی جائے تو دوسری طرف سے نہ لیکن حرکت غسل سے ہو یا ہاتھ سے یا وضو سے ۔ اس میں حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف سے مختلف روایات ہیں جس سے ظاہر ہے کہ مسئلہ منصوص نہیں بلکہ اجتہاد و تفقہ کی پیداوار ہے ۔ اسی طرح دہ در کا مسئلہ بھی متاخرین نے پیدا کر دیا۔ مولانا رضوی خود ہی سوچیں کہ اس قسم کے فقہی اختلافات کی بنا پر اقتداء سے روکنے کا فتوی دانشمند ی نہیں ۔ بلکہ جس طرح ائمہ نے ان مسایل میں اختلاف کا حق دیا ہے اور شریعت میں اپنے اجتہادات کو ٹھونسنے کی کوشش نہیں فرمائی ۔ اب بھی تنگی نہ فرمائی جائے بلکہ اپنے مسلک اور تحقیق کی پابندی کے بعد دوسرے فقہی اختلافات میں رواداری برتی جائے ۔ بریلوی حضرات تو سارے ہی تقریبا کم ظرف ہیں ۔ دیو بندی حضرات میں اس قسم کی کم ظرفی مولانا تھانوی اور مولانا |
Book Name | تحریکِ آزادی فکراور حضرت شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی |
Writer | شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعٰیل صاحب سلفی |
Publisher | مکتبہ نذیریہ، چیچہ وطنی |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 236 |
Introduction | تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے- |