سے نہیں اور نہ ہی وہ حدیث کی سند محدثین تک پہنچاتے ہیں۔‘‘ شیخ ابوغدہ حنفی علامہ ملاعلی قاری کے اس فیصلے کی تحسین کرتے ہوئے حاشیہ میں لکھتے ہیں : ’’ أحسنت أحسنت جزاک االلّٰہ خیرا عن حدیث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (حاشیۃ المصنوع ص ۱۵۷) ’’ آپ نے بہت اچھا کیا،حدیث کے اس دفاع کی اﷲ تعالیٰ آپ کو جزا عطا فرمائے۔‘‘ مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے شرح الوقایہ کے مقدمہ میں بھی علامہ علی قاری رحمہ اللہ کی یہ عبارت نقل کی ہے اور پھر مزید اس کی تائید میں لکھا ہے: ’’ و ھذا الکلام من القاری أفاد فائدۃ حسنۃ و ھي أن الکتب الفقھیۃ و إن کانت معتبرۃ في أنفسھا بحسب المسائل الفرعیۃ وکان مصنفوھا أیضاً من المعتبرین والفقہاء الکاملین،لا یعتمد علی الاحادیث المنقولۃ فیھا اعتماداً کلیاً ولا یُجزم بورودھا و ثبوتھا قطعا بمجرد وقوعھا فیھا فکم من أحادیث ذکرت في الکتب المعتبرۃ و ھی موضوعۃ و مختلفۃ‘‘۔۔الخ (مقدمہ عمدۃ الرعایۃ في حل شرح الوقایۃ ص ۱۲،۱۳) [1] |