Maktaba Wahhabi

160 - 166
اور فقہی احادیث پر مشتمل ذخیرہ وضع کر کے ایک عظیم اسلامی قانون کی بنیاد رکھی۔14 اس کاساتواں نکتہ یہ ہے کہ جہاں تک فقہی یا قانونی احادیث کی اسناد کا تعلق ہے تو اس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں ہے۔ جن علماء نے اپنے مکتبہ فکر کی تائید میں احادیث وضع کی تھیں انہوں نے ان کی اسناد بھی گھڑ لی تھیں۔15 جہاں تک شاخت کا پہلا نکتہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کودین اسلام میں کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے یا ان کا مقصود امت مسلمہ کو کوئی قانونی نظام دینا نہیں ہے تو یہ قطعاً غلط فرضیہ(hypothesis) ہے۔قرآن اس کی شد ومد سے مخالفت کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَـبٰۗىِٕثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الأعراف: ۱۵۷) ’’اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام قرار دیتے ہیں۔ اور انہیں ان بوجھوں اور طوقوں سے نجات دلاتے ہیں جو ان پر سوار ہیں۔‘‘16 اس آیت مبارکہ میں تحلیل وتحریم (Permission and Prohibition) کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے گویا کہ جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا، قرآن نے اسے حلال کہا ہے اور جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا، قرآن نے اسے حرام کہا ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت بھی بیان ہوئی ہے کہ آپ لوگوں کی گردنوں میں پڑے ہوئے رسوم ورواج کے طوقوں سے انہیں آزادی دلاتے ہیں۔ کسی معاشرے کے رسوم ورواج بعض اوقات اس معاشرے میں قانون کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں جسے کامن لاء (Common Law)کہا جاتا ہے۔تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حلال وحرام کے بیان کے ذریعے امت مسلمہ کو اسلامی قانون دے رہے تھے بلکہ اس جاہلی معاشرے میں پہلے سے موجود ظالمانہ قوانین کو بھی باطل (void) قرار دے رہے تھے۔ ایک اور جگہ قرآن مجید میں مسلمانوں سے خطاب ہے: ﴿ قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ
Flag Counter