Maktaba Wahhabi

151 - 166
کی طرف تشیع اور اعتزال کی نسبت کی ہے۔ ۲۰۔الاستشراق والتاریخ الإسلامی: ص۹۷ ۲۱۔أیضاً: ص۱۱۵ ۲۲۔ابن الجوزی، عبد الرحمن بن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۹۲ئ، ۷؍۲۰۔۲۱ 23- Philip Khuri Hitti, Accessed 30 June 2014, from http://en.wikipedia.org/wiki/Philip_Khuri_Hitti 24- Philip K. Hitti, History of the Arabs, London: Macmillan and Co., 1946, p. 220 ۲۵۔معاویہ بن یزید کے بعد مروان بن حکم نے پہلے پہل حضرت عبد اللہ بن زبیر کی مدینہ میں بیعت کا ارادہ کیا لیکن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بنو امیہ سے بہت نفرت تھی، جس کی ایک بڑی وجہ یزیدبن معاویہ کے زمانے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور اہل مدینہ کا قتل عام بھی تھا، لہٰذا انہوں نے اس سے بیعت لینے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں مروان بن حکم نے شام میں جا کرحضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی بیعت لینا شروع کر دی۔ مروان کے بعد اس کے بیٹے عبد الملک بن مروان (۲۶۔۸۶ھ) نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑائی جاری رکھی اور پہلے عراق پر قبضہ کیا اور پھر حجاز کی طرف حجاج بن یوسف (۴۰۔۹۶ھ) کو بھیجا۔ اہل علم کی ایک جماعت کا کہنا یہ ہے کہ جب تک حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم رہی، اس وقت تک مروان بن حکم اور اس کے بیٹے عبد الملک بن مروان کا حکم باغیوں کا تھا لیکن ان کی شہادت کے بعد اہل اسلام کا عبد الملک بن مروان کی حکومت پر اتفاق ہو گیا۔ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، مروان بن حکم سے افضل اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں۔ امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ معاویہ بن یزید کے بعد امام، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں کیونکہ معاویہ بن یزید کے بعد بلادِ اسلام کی اکثریت نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی اور وہ اس سے زیادہ ہدایت پر ہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ بھی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہی کو امیر المؤمنین قرار دیتے ہیں جبکہ امام ابن حزم رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے تو مروان بن حکم کو باغی قرار دیا ہے۔ (علی محمدالصلابی الدکتور، خلافۃ أمیر المؤمنین عبد اللہ بن زبیر، مؤسسۃ اقرأ، القاھرۃ، ۲۰۰۶ئ، ص۶۴) 26- Hamilton Alexander Rosskeen Gibb, Accessed 30 June 2014, from
Flag Counter