یامقدس مقامات یاان کےآباء واجداد کی قبریں ہوں اہل عرب ان پراحترام اورتعظیم کے طورپر کنکریاں مارتےتھے۔ ایک شعر میں، جوکسی جاہلی شاعرکی طرف منسوب ہے، ان کی قسم بھی وارد ہوئی ہے۔ لیکن اسلام رمیِ جمرات کے سلسلہ میں عہدِ جاہلیت کے اہلِ عرب کے برخلاف دوسراتصورپیش کرتاہے۔ اسلام میں جمرات صرف تین ہیں جومنیٰ میں ہیں، یعنی جمرۂ اولیٰ، جمرۂ وسطیٰ، جمرۂ عقبہ۔ “[1]
ڈاکٹرموصوف کایہ خیال صحیح نہیں۔ رجم کسی بھی زمانے میں احترام وتعظیم کامظہرنہیں سمجھاگیاہے، بلکہ ہمیشہ اس سے تحقیروتذلیل ہی مراد ہوتی تھی۔ قرآن مجیدسےیہی معلوم ہوتاہے۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کودعوت دی توانہوں نے جواب دیا: ﴿لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ﴾(الشعراء:116)۔
”اےنوح، اگرتوبازنہیں آیاتوسنگ سارکیے ہوئےلوگوں میں سےہوگا۔ “
حضرت شعیب علیہ السلام نےاپنی قوم کوخدائےواحد کی طرف بلایاتوانہوں نےبھی غیظ وغضب سے بھڑک کریہی کہا:
﴿لَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ﴾(ھود:91)
”تیری برادری نہ ہوتی توہم کبھی کاتجھےسنگسارکرچکے ہوتے۔ “
رجم عبرانیین اورنصاری کےنزدیک بھی اسی معنی ٰ میں معروف تھا، جیساکہ توریت اورانجیل سے معلوم ہوتاہے[2]اوربنوارم کے نزدیک بھی یہی معنیٰ سمجھے جاتے تھے[3]ابورغال کی قبرکوبھی اہل عرب اسی وجہ سےرجم کرتے تھےکہ اس نےابرہہ کومکہ کاراستہ بتایاتھا۔
اگرڈاکٹرجواد علی کایہ بیان صحیح ہے کہ اہلِ عرب نے متعددجمرات بنارکھے تھےاوران کاطواف اورتعظیم وتقدیس کرتےتھے توغالباًاس کی صورت یہ رہی ہوگی کہ انہوں نے جمرات کے قریب اپنے بت نصب کررکھےہوں گے اوروہ ان بتو ں کی تقدیس وتعظیم اوران کاطواف کرتےرہےہوں گے، جس طرح کہ صفاومروہ شعائرمیں سےتھے، اہل عرب ان کے درمیان سعی کرتےتھے، لیکن انہوں نےدونوں پہاڑیوں پراساف ونائلہ نامی دوبت نصب کررکھےتھے اوران کی تعظیم وپرستش کرتےتھے۔
|