Maktaba Wahhabi

157 - 456
کرسکتے، توقریش اوربنی اسماعیل کی نسبت کس طرح کرسکتےہیں، جن کاتمام سرمایۂ فخرونازش ہمیشہ شہ سواری، شمشیرزنی اوتیراندازی ہی رہاہے۔ ‘‘ عربوں کی غیرت وحمیت برحق ہے، لیکن ہرچیزکی ایک حدہوتی ہے۔ ابرہہ یمن کابادشاہ تھا۔ اس کے علاوہ عرب کے بعض علاقوں پربھی قابض تھا۔ چنانچہ بیان کیاگیاہے کہ نجداوراطرافِ عراق پربھی اس کی حکم رانی تھی۔ [1]جاہلی شعراء نے اس کی عظمت کےقصیدےپڑھے ہیں[2]۔ کچھ عرصہ قبل سدّمارب کی کھدائی میں ایسی تختیاں برآمد ہوئی ہیں جنہیں ابرہہ کے حکم سے لکھاگیاتھا۔ ان میں درج ہے کہ ابرہہ سبا، ریدان، حضرت موت، یمنات، عرب النجاداورعرب السواحل کابادشاہ تھا۔ ‘‘[3] ابرہہ ایک بڑی فوج لے کرآیاتھا۔ ابن الزبعری کے شعرمیں صراحت ہے کہ اس کی تعداد ساٹھ ہزارتھی[4]ان میں سے شہ سواروں کی تعداد کم از کم دس ہزارتھی۔ ساتھ میں تیرہ ہاتھی بھی تھے۔ [5]اس کامطلب یہ ہے کہ وہ زبردست تیاری کے ساتھ آیاتھا۔ دوسری طرف اہل عرب منتشرتھے۔ ان میں سے بہت سوں نے ابرہہ کی اطاعت قبول کرلی تھی، یہاں تک کہ ان کاایک گروہ اس کی فوج میں شامل تھا۔ [6]قبیلۂ ثقیف اوردوسرے جن قبیلوں نے راستے میں اس سے جنگ کی تھی وہ شکست کھاچکےتھےاورانہوں نےخودسپردگی اختیارکرلی تھی۔ معلّم فراہی کاخیال ہے کہ ابرہہ کی آمدایام حج میں ہوئی تھی۔ اگراسے صحیح مان لیاجائے تویہ بات طے ہے کہ اس سال حج کے لیے بہت کم لوگ آئے تھے، کیوں کہ بیشترعربو ں نےابرہہ کی ماتحتی قبول کرلی تھی اورجولوگ حج
Flag Counter