جب مومن بندہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو فرماتے ہیں: ’’میں نے اپنے بندے کو اپنی زنجیروں میں سے ایک زنجیر میں جکڑا ہے، اگر میں نے اسے موت دے دی تو میں اسے معاف فرما دوں گا اور اگر صحت دی تو وہ گناہوں سے پاک ہوگا۔‘‘[1]
ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے اللہ تعالیٰ جب بندے کو کسی آزمائش کے ذریعے آزماتا ہے تو اس آزمائش کو گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے جب تک کہ وہ اس مصیبت کو غیر اللہ کے پاس پیش نہ کرے یا غیر اللہ سے اسے ختم کرنے کی فریاد نہ کرے۔[2]
حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو دمشق کے کچھ لوگ عیادت کے لیے آئے پوچھا : ابو اسحاق کیسی طبیعت ہے؟ جواب دیا : بہترین جسم کے ساتھ ہوں جس کے گناہ معاف ہو چکے، اگر اللہ چاہے تو اسے معاف کر دے چاہے تو عذاب دے اور اگر اللہ چاہے تو نیا جسم عطا کر دے کہ جس پر کوئی گناہ نہ ہو۔[3]
سعد بن وہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک شخص کی عیادت کے لیے آئے، انھوں نے فرمایا : ’’آدمی آزمایا جاتا ہے اور وہ آزمائش اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور باقی پر مواخذہ کیا جاتا ہے۔ کافر بھی آزمایا جاتا ہے جبکہ کافر کی مثال اونٹ کی طرح ہے اگر کھولا جائے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ مجھے کیوں کھولا گیا ہے اور اگر باندھا جائے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے کیوں باندھا گیا۔‘‘[4]
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گر پڑا اور کہا میں سات سال سے بیمار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بھائی صبر کرو گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاؤ گے جس طرح داخل ہوئے تھے۔ مرض کے لمحات گناہوں کے لمحات کو مٹا دیتے ہیں۔‘‘ [5]
|