Maktaba Wahhabi

291 - 292
اس پر بجلی بن کر گرنے کے مترادف ہے اور بندہ مؤمن کو اگر(شاعر، جادوگر، دیوانہ، پاگل) کہہ کرپکارا جائے تو کیا اس کا ضمیراس کو گوارا کرے گا؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق کائنات میں کامل ترین انسان تھے۔ صدق ووفا کے پیکر تھے عقل وفہم کے اعتبار سے دنیا کی کامل ترین شخصیت ہونے کااعزازرکھتے تھے۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کی طرف سے ایسے بھونڈے القاب سے موسوم کیا جانا ایک ناقابل برداشت بات ہے۔ یہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حد سے زیادہ اذیتیں اور تکلیفیں دی گئیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود آپ کے شہر سے نکالا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی گئی۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: (وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ) (الانفال: 30) ’’اور جب وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، تیرے خلاف خفیہ تدبیریں کر رہے تھے، تاکہ تجھے قید کر دیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے نکال دیں۔‘‘ یہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو انہوں نے قتل کرڈالا،اور بعض کو سخت اذیتیں اور تکلیفیں دیں،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ بات ناقابل برداشت اور سوہان روح تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین وپیروکاروں پر ظلم وستم ڈھایا جاتا تھا اور بعض کوتکلیفیں دے کرموت کی نیندسلادیا جاتا تھا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاجب سیّدنا یاسر اورسیّدنا سمیہ رضی اللہ عنھا کے پاس سے اس حال میں گزرہوتا کہ انہیں اذیتیں دی جارہی ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے فرمایا کرتے تھے: ’’ اے آل یاسر! صبر وتحمل سے کام لو، بلاشبہ یقینی طورپرتمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔‘‘ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ آگئے تو وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین کی دسیسہ کاریوں سے نبردآزمائی کرنا پڑی اوران کی طرف سے اذیتوں اور تکلیفوں سے
Flag Counter