Maktaba Wahhabi

290 - 292
اللہ تعالیٰ آزمائش کے بقدر اپنی مدد اور نصرت کا نزول فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں فرماتا اس کا وعدہ وقوع پذیرہوکر رہتا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: (فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لا يُوقِنُونَ) (العنکبوت، الروم: 60) ’’پس صبر کر، یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ لوگ تجھے ہرگز ہلکا نہ کر دیں جو یقین نہیں رکھتے۔ ‘‘ سیّدنا یعقوب علیہ السلام نے سیّدنا یوسف علیہ السلام کے گم ہوجانے پر صبر کیا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی اولاد میں دوبیٹوں کی گم شدگی پر تحمل کا مظاہرہ کیا اور تاریخی جملہ فرمایا: (فَصَبْرٌ جَمِيلٌ)(یوسف: 83)یعنی بلاشبہ اس موقعہ پر صبرہی بہتر اور افضل ہے۔نہ تو خفگی وناراضگی کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی اویلا مچایا اور بڑے وثوق اور اعتماد کے ساتھ فرمایا: (عَسَى اللّٰہُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا) (یوسف:83) ’’عنقریب اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس لے آئے گا۔‘‘ مزید یہ کہ اپنی پریشانیوں اور رنج وغم کی فریاد اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰہِ ) (یوسف:86) ’’میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج وغم کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں۔‘‘ مگرمخلوق کے سامنے گلہ وشکوہ نہیں کیا ۔ اس کے نتیجہ میں اللہ کی مدد اور نصرت کا نزول ہوا اور ان کی ساری کی ساری اولاد ایک جگہ اکٹھی ہوگئی۔ 5۔ بے مثال واقعات میں تدبر کرنا۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کتنی مصیبتوں اوراذیتوں اورظلم کا شکار بنے حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومجنون اور دیوانہ، جادوگر کہاگیا۔ اس میں سب سے بھونڈی تہمت طرازی یہ تھی کہ آپ پر جھوٹ اوردروغ گوئی کی تہمت لگائی گئی اورعقل مند شخص کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ اسے مجنون یادیوانہ کہا جائے اور کسی امین وراست گو شخص کو اگرخائن کہا جائے تو یہ بات
Flag Counter