Maktaba Wahhabi

292 - 292
دوچارہونا پڑا۔ اس بارے میں بطور مثال افک کا واقعہ کافی ہے۔ کیا اس سے بڑھ کر اور کوئی ایذا رسانی ہوسکتی ہے۔ ام المؤمنین کودروغ گوئی اور تہمت طرازی کا نشانہ بنایا جائے؟ یہودیوں کی اس چال پر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر وتحمل سے کام لیاجبکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوزہرکھلانے کی کوشش کی،جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکبھی کبھی بخار کی شدت والی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی اور جوڑی بخارکا عارضہ لاحق ہوجایا کرتا تھا حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بھی یہی سبب بنا۔اس طرح ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر وتحمل کو اپنا شعار بنایا حتی کہ رب کریم کی طرف سے موت کا پروانہ آپہنچا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیغام رسالت کو امت تک پہنچاچکے تھے اور اللہ کی طرف سے سونپی امانت کوادا کرچکے تھے۔ یہی حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثارصحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا تھا جن میں سرفہرست سیّدنا بلال، سیّدنا سمیہ، سیّدنا صہیب رومی، سیّدنا عمار، سیّدنا مقدادرضی اللہ عنھم اجمعین تھے ان میں سے ہر ایک طرح طرح کی اذیتوں اور تکلیفوں سے دوچار ہوا اورانہیں مختلف قسم کے عذاب سے دوچارہونا پڑا مگرانہوں نے صبر وتحمل کا ثبوت پیش کیا اور ان کے پائے استقلال میں ذرہ برابر جنبش نہ آئی بلکہ انہوں نے ثبات واستقامت کاپہاڑبن کر اس کامقابلہ کیا اور ان کی ایذا رسانیوں کی ذرہ برابر پروا نہ کی۔چنانچہ صحابی جلیل سیّدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو قید کرلیا گیا تھا تاکہ انہیں قتل کردیا جائے اور سولی پر لٹکادیا جائے۔ اس کے باوجود ان کا کہنا تھا: ’’مجھے اس بات کی قطعی پرواہ نہیں ہے کہ میں قتل کردیا جاؤں اس میں حال کہ میں دولت اسلام سے سرشارہوں۔ اب چاہے جس کروٹ موت آئے مجھے اس کا کوئی گلہ نہیں ہے۔‘‘[1]اسی نہج کوتابعین اور تبع تابعین رضی اللہ عنھم اجمعین نے اختیارکیا اوراس پرچل کرایک مثالی کردارادا کیا۔ سیّدنا عروہ بن زبیر کا تابعین میں چنیدہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور آپ تابعین میں عظیم المرتبت شخصیت کے حامل تھے۔ آپ کا ایک لڑکا تھا اس کانام محمد تھا۔ جوبڑاخوبرو اور حسین وجمیل تھا۔ ایک دن وہ خلیفہ وقت ولید بن عبدالملک کے ایوان میں جا پہنچا۔ خوبرو تو تھا ہی اس
Flag Counter