میرے سامنے ان کا یہ پھوڑا بے قیمت ہو کر رہ گیا۔‘‘[1]
185۔ حضرت ابوحیان تیمی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’میں حضرت سوید بن شعبہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ ان حضرات میں سے تھے جن کے لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کوفہ میں خط لکھے تھے۔ یہ سر جھکائے ہوئے اور کپڑا لپیٹے ہوئے بیٹھے تھے۔ اگر ان کی اہلیہ نے ان سے یہ نہ کہا ہوتا ہمارا گھرانہ آپ پر فدا ہو ہم آپ کو کیا کھلائیں؟ کیا پلائیں؟ تو مجھے گمان نہ ہوتا کہ کپڑے کے نیچے کوئی چیز ہے۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو فرمایا: اے بھتیجے! سرین اور ران کے درمیانی حصہ میں اور ریڑھ کی ہڈی میں پھوڑے نکلے ہوئے ہیں اس کے سوا کوئی تکلیف نہیں، خدا کی قسم میں پسند نہیں کرتا کہ اس تکلیف میں ناخن برابر بھی کمی ہو (بلکہ اس پر صبر کروں گا)۔‘‘
186۔ حضرت لیث بن ابی سلیم فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت طلحہ بن مصرف کو حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات بیان کی کہ وہ تکلیف سے کراہنے کو پسند نہیں کرتے تھے تو ان سے بھی ان کی بیماری میں وفات تک دکھ کی کوئی بات نہ سنی گئی۔‘‘[2]
187۔ حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: ’’اگر مجھے عافیت
مل جائے اور میں شکر کروں یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس سے کہ مجھے تکلیف پہنچے اور میں صبر کروں۔‘‘
188۔ حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’صبر دو قسم پر ہے۔ ایک صبر تو یہ ہے کہ آدمی اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے رکے اور اس کے ساتھ یہ صبر بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت میں سے جو کچھ اس پر فرض کیا ہے اس کو ادا کرے۔ یہ افضل صبر ہے اور دوسرا صبر یہ ہے کہ مصیبتوں پہ صبر کرے اور وہ نفس کا اللہ کے لیے اعتراف کرنا ہے کہ جب آدمی کو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ محض اللہ کی خاطر اس کو برداشت کرے اور اس سے ثواب کی امید رکھے۔ یہی وہ صبر ہے جس پر اس کو اجر عظیم دیا جائے گا۔ تو ایسے شخص کو بھی دیکھے گا جو مصیبت کے
|