مصیبت میں ڈال دیتے ہیں اور جب اس کو مصیبت میں ڈالتے ہیں تو اس کو صبر کی توفیق دیتے ہیں۔‘‘[1]
182۔ حضرت قرۃ النحات فرماتے ہیں: ’’میں نے اردن کے ایک عابد سے جو پہاڑوں میں رہتا تھا خواہش کی کہ مجھے کچھ وصیت کریں۔ تو اس نے کہا: اچھے کام کرو اور نیکیوں کے ساتھ اللہ تک پہنچو۔ مجھے کوئی چیز معلوم نہیں کہ وہ مالک کو زیادہ راضی کرنے والی ہو سوائے اس چیز کے جس سے مالک محبت کرتا ہو۔ پس تم اس کی محبت حاصل کرنے میں سبقت کرو، وہ تمہیں جلدی اپنی محبت تک پہنچا دے گا۔ پھر وہ رو پڑے۔ میں نے کہا: اللہ آپ پر رحمت فرمائے، مجھے کچھ اور بھی نصیحت کریں۔ فرمایا کہ الہ کی محبت اور خواہش پر صبر کرنا ہر نیکی کی اصل ہے۔ یا فرمایا کہ ہر خیر کی اصل ہے۔ حضرت قرۃ النحات فرماتے ہیں کہ مجھے فلسطین کے ایک عابد نے بتایا کہ یہ بات مشہور تھی رضائے الٰہی میں صبر اختیار کرنا بدن میں سر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر درست نہیں ہو سکتا۔‘‘
183۔ حضرت ابراہیم بن یزید نخعی کوفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حضرت اسود (بن یزید جو حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے شاگردوں میں سے تھے) کی ماں پاؤں سے
معذور ہو کر بیٹھ گئی تو اس کی وجہ سے اس کی بیٹی نے بڑی گھبراہٹ کے الفاظ کہے تو اس کی والدہ نے فرمایا: اے اللہ! اگر اس میں کوئی خیر ہے تو اس میں اضافہ کر دے۔‘‘[2]
184۔حضرت عبدالعزیز بن ابی رواد فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت محمد بن واسع رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں ایک پھوڑا دیکھا۔ شاید کہ انہوں نے دیکھا کہ اس پھوڑے کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچی ہے تو فرمایا: تجھے معلوم ہے کہ اس پھوڑے میں اللہ تعالیٰ کی مجھ پر کون سی رحمت ہو رہی ہے؟ تو میں خاموش ہوگیا۔ تو انہوں نے فرمایا: اس نے یہ پھوڑا میری آنکھ میں یا میری زبان کے کنارے پر نہیں نکالا اور نہ ہی عضو تناسل کے کنارہ پر۔ فرماتے ہیں کہ
|