Maktaba Wahhabi

257 - 292
وقت صبر کرنے والا اور بہت برداشت کرنے والا ہوتا ہے لیکن اللہ کی رضا کا خواہش مند اور اس سے ثواب کا امیدوار نہیں ہوتا۔ جب کہ تجھے ہر دین میں مصیبت پر صبر کرنے والے بھی مل جائیں گے۔ جب تو مصیبتوں میں صبر میں غور کرے گا تو دو صبر واجب ہو جائیں گے۔ ایک اللہ کے لیے دوسرا انسان کی ذات میں اچھی صفات کے ہونے کی وجہ سے۔ اور آپ سے گھبراہٹ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ گھبراہٹ دو شکل میں ہوتی ہے۔ ایک گناہوں کی وجہ سے آدمی کو گھبراہٹ ہوتی ہے اور دوسری مصیبت کے وقت۔ مصیبت کے وقت گھبراہٹ یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رضا کا خیال نہ کرے اور نہ اس کے ثواب کی امید رکھے بلکہ یہ سمجھے کہ کوئی بری چیز ہے جو مجھے پہنچی ہے۔ یہ گھبراہٹ ہے برداشت کرنے والا آدمی بھی گھبرا جاتا ہے لیکن دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ صبر کر رہا ہے۔‘‘ 189۔ حضرت یزید الرقاشی فرماتے ہیں:’’(وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ) میں الحَقُّ سے مراد کتاب اللہ ہے اور (وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ)میں الصبرسے مراد اللہ کی اطاعت میں ڈٹے رہنا ہے۔‘‘[1] 190۔حضرت یزید الرقاشی فرماتے ہیں: ’’اے بوڑھوں کی جماعت! جنہوں نے گناہوں کو نہ چھوڑا۔ حتیٰ کہ گناہ ان کو چھوڑ گئے۔ کاش! جبکہ وہ گناہ کرنے سے عاجز آگئے تو وہ یہ تمنا نہ کریں کہ ان کو اگر قوت حاصل ہو جائے تو وہ گناہ کریں۔‘‘ 191۔ حضرت علی بن حسن نے فرمایا: ’’ایک شخص نے حضرت احنف بن قیس رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا آپ کتنے صابر ہیں؟ فرمایا: گھبرانا اور آہ وفغاں کرنا دونوں حالتوں سے برا ہے۔ مطلوب سے دور کرتا ہے۔ حسرت کو پیدا کرتا ہے اور واویلا کرنے والے کے لیے عاربن جاتا ہے۔‘‘ 192۔ حضرت اسحق بن یحییٰ بن طلحہ نے بیان کیا: ’’جب حضرت حطیط کو اذیت دی جا رہی تھی تو وہ یہ دعا کر رہے تھے: اے اللہ! تو فراوانی کے ساتھ صبر عطا فرماتا ہے۔ پس اپنے بندے حطیط پر بھی صبر کی فراوانی فرما۔‘‘[2]
Flag Counter