پیدا ہوا ہے (یعنی) جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرنے لگتا ہے اور جب فارغ البالی ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے مگر نمازی۔‘‘ جب الا المصلین تک پہنچتے تو اس کو لمبا کر کے پڑھتے اور کوئی کلمہ نہ کہتے۔ حتیٰ کہ ان کو اذیت دینا بند کر دیا جاتا تھا۔ آپ اسی طرح اذیت میں رہے حتیٰ کہ رسی نے آپ کے پیٹ کو دبا دیا تو فرمایا: مجھے حجاج کے پاس لے چلو۔ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں تو خوشخبری دینے والا حجاج کے پاس گیا (کہ حطیط آپ سے بات کرنا چاہتا ہے) حجاج نے کہا: کیا خبیث گھبرا گیا ہے؟ اس کو میرے سامنے پیش کرو۔ جب آپ کو پیش کیا گیا تو حجاج نے کہا: ہاں گھبرا گئے ہو؟ فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم میں نہیں گھبرایا اور نہ ہی مجھے زندگی کی طمع ہے میں جانتا ہوں کہ میں مرجاؤں گا لیکن میں اس لیے آیا ہوں کہ تیرے خبیث اعمال پر تجھے ڈانٹ پلاؤں اور اپنے سینہ کو ٹھنڈک پہنچاؤں پھر ڈانٹتے ہوئے اس کو کہا: تو اس جرم میں ملوث نہیں؟ تو اس جرم میں ملوث نہیں؟ حتیٰ کہ اس سے جھگڑنے لگے تو حجاج نے ایک نیزہ منگوایا اور آپ کو گھونپ دیا۔‘‘
176۔حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجھے حضرت اسحاق بن یحییٰ نے بیان کیا: ’’جب حضرت حطیط کو عذاب دیا جا رہا تھا تو وہ یہ دعا کر رہے تھے: ’’اے اللہ! تو خوب صبر دیتا ہے۔ اپنے بندے حطیط پر بھی صبر کو پلٹ دے۔‘‘
177۔ حضرت قاسم بن عبدالواحد فرماتے ہیں: ’’جب زیاد کو ذوالثفنات کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ دئیے گئے، پھر پوچھا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: تو نے میری دنیا خراب کی ہے اور میں نے تیری آخرت خراب کر دی ہے۔ پھر انہوں نے اپنے پاس کی ایک عورت اس کے پاس بھیجی اور اس کا حال پوچھتے تھے تو وہ کہتی مجھے کچھ معلوم نہیں۔ سوائے اس کے کہ میں نہ رات کو اس کا بستر بناتی ہوں نہ دن کو۔ میں دن کو اس کا کھانا بھی تیار نہیں کرتی فرمایا کہ کیا تو مجھے یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نماز پڑھتا ہے، اگر وہ اتنا اچھا ہے تو شاید میں نے اس کو سزا دے کر ظلم کیا ہے اس لیے اس پر انہوں نے سو غلام آزاد کر دئیے۔‘‘
|