Maktaba Wahhabi

252 - 292
والے)۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے اس دکھی سے فرمایا آؤ دعا کرو ہم بھی تمہارے ساتھ دعا کرتے ہیں اللہ تم پر تمہارے ہاتھ پاؤں اور تمہاری نگاہ کو لوٹا دیں گے اور تم ویسی عبادت کر سکو گے جیسی پہلے کرتے تھے۔ اس عابد نے کہا مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا: کیوں؟ عابد نے فرمایا: اگر خدا کی چاہت اسی میں ہے تو اس کی چاہت مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے فرمایا: اے جبریل! خدا کی قسم میں نے کسی کو اس سے بڑا عبادت گزار نہیں دیکھا۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اے یونس! یہ وہ راستہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف اس سے بہتر طریقہ سے نہیں پہنچا جا سکتا۔‘‘[1] 175۔ حضرت ابوصیداء فرماتے ہیں: ’’حجاج بن یوسف نے حطیط رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کچھ آدمی بھیج کر ان کو بلایا اور کہا کہ اسے یہ بات پہنچی ہے کہ حطیط کہتا ہے کہ اے اللہ! میں نے تیرے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ اگر تو مجھے کچھ عطا کرے گا تو میں شکر کروں گا اور اگر تو نے مجھے آزمائش میں ڈالا تو میں صبر کروں گا۔ حجاج نے اس بات کے متعلق ان سے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی پھر وہ جو کچھ بھی ان سے پوچھتا رہا آپ سچ بولتے رہے اور حجاج اسی اثناء میں ان کو ایک لاٹھی کے سرے کے ساتھ مار رہا تھا تو آپ نے اس سے کہا: اپنے ہاتھ روک لے ورنہ میں اللہ سے معاہدہ کروں گا کہ جب تک میری اس سے ملاقات نہ ہو تجھ سے ایک لفظ بھی نہیں بولوں گا لیکن حجاج نے اس سے رکنے سے انکار کر دیا اور حطیط خاموش ہوگئے۔ حجاج چاہتا تھا کہ یہ بات کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا تو اس نے سزا دینے والے کو پکارا اور اس کو حکم دیا کہ اس کو اشقر پر چڑھا دو، اشقر کھجور کی چھال کی بنی ہوئی رسی تھی جو دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی تھی جس پر مرد کو چڑھایا جاتا تھا اور اس کی شرمگاہ کو اذیت پہنچائی جاتی تھی اور اوپر پھینکا جاتا جب وہ نیچے گرنے لگا تو مرد اس کو تھامتے تھے۔ یہ تکلیف ان کو کئی دن تک دی جاتی رہی جب بھی آپ کوئی اعتراض کرتے آپ کو یہی اذیت دی جاتی تھی جب آپ کو رسی میں بٹا جاتا تھا تو آپ یہ آیات پڑھتے تھے: ’’انسان کم ہمت
Flag Counter