لئن کان بدء الصبر مرا فعقبہ لقد یجتنی من غبہ الثمر الحلو[1]
’’سن لو کسی کو دوام حاصل نہیں، سوائے اللہ کی ذات کے اور بے مثال غلبہ میں بھی اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اگرچہ صبر کی ابتدا کڑوی ہوتی ہے لیکن اس کے بعد میٹھا پھل حاصل ہوتا ہے۔‘‘
170۔ابو محمد خزیمہ بیان کرتے ہیں: ’’حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ ایک اندھے کوڑھی اپاہج ننگے شخص کے پاس سے گزرے۔ جو برص کا مریض بھی تھا اور وہ الحمد للہ علی نعمتہ، (اللہ کی اس کی نعمت پر حمد ہو) کہہ رہا تھا۔ ایک شخص جو حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا۔ اس نے اس سے کہا: تم پر کونسی نعمت ہے جبکہ تم اس حالت میں ہو؟ اس مصیبت زدہ نے کہا: اپنی نگاہ شہر والوں کی طرف اٹھا کر دیکھ کہ اس میں کتنے لوگ رہتے ہیں، میں اللہ کی اس کی نعمت پر حمد کیوں نہ کروں، کیونکہ ان میں میرے سوا دوسرا کوئی نہیں جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہو۔‘‘[2]
171۔ حضرت انس بن مالکt فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات انصار سے فرمایا:’’تم (میرے بعد) شدید حق تلفی دیکھو گے۔ اس پر تم صبر کرنا حتیٰ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے جا ملو۔ میں (تمہیں قیامت کے دن) حوض پر ملوں گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: ہم صبر کر لیں گے۔‘‘[3]
172۔حضرت عبدالعزیز بن ابی رواد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ بات مشہور تھی کہ: ’’سچی
بات کہنا اور حق پر صبر کرنا شہداء کے اعمال کے برابر رہے۔‘‘
173۔حضرت عبیداللہ بن محمد تیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھیوں نے اپنے حضرات سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے اور بہترین خطبہ دیا اور یہ خطبہ آپ کو بہت پسند آیا۔ بنو اسرائیل نے بھی پوچھا کیا لوگوں میں
|