صحت مندوں کے مقابلہ میں مصیبت زدہ لوگوں کو دیکھ لے اور ان کے درمیان امتیاز کر لے
اور یہ بھی جان لے کہ اللہ عزوجل سے آسمانوں میں اور نہ زمین میں ایک معمولی ذرہ بھی نہیں چھپ سکتا۔‘‘
166۔ حضرت ابوعبدالرحمن حبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ہمسایہ کی شکایت لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم اس کو اذیت دینے سے باز رہنا اور اس کی اذیت پر صبر کرنا موت بطور جدائی ڈالنے کے کافی ہے۔‘‘[1]
167۔حضرت ابو مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں نے عمر بن ذر رحمۃ اللہ علیہ سے سنا جو اس آدمی کو نصیحت کر رہے تھے جس کو اس کے پڑوسی نے ایذاء پہنچائی تھی۔ اے بھائی! صبر کر خدا کی قسم قیمت میں صبر کے ثواب کی طرح میں نے کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اپنے لیے صبر کو لازم کر لو۔ اس کی وجہ سے تم صابرین کے ثواب کو پہنچ جاؤ گے۔ اور جان لو کہ صبر اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ہے اور یہ ہرگز کسی کو نہیں ملتا۔ مگر جس کی آقا کے سامنے شان ہو پس جتنی تجھ میں قدرت ہے صبر کرنے کی اس کو غنیمت جان تو اس کا فوری بھی اور دیر سے بھی ان شاء اللہ اچھا انجام دیکھے گا۔‘‘
168۔حضرت محمد بن المنکدر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے پاس یزید کی بیعت کا پیغام پہنچا تو آپt نے فرمایا: اگر اچھا رہا تو ہم راضی رہیں گے اور اگر مصیبت ہوگی تو ہم صبر کر لیں گے۔‘‘
169۔ احمد بن واصل کوفی کہتے ہیں: میں طالبین کے لیے خط لکھتا تھا۔ اہل مکہ کی ایک عورت بھی ان کے ساتھ خط وکتابت رکھتی تھی۔
ایک مرتبہ اس نے ان کی طرف یہ شعر لکھے:
اما والذی لا خلد الا لوجہہ ومن لیس فی العز المنیع لہ کفو
|