بھیجا تو انہوں نے کہا: اس کا کوئی علاج نہیں۔ سوائے اس کے کہ ان کا پاؤں کاٹ دیا جائے۔ جب آپ کا پاؤں کاٹا گیا تو آپ ولید کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ کے چہرے پر کچھ بھی تغیر معلوم نہ ہوا۔‘‘ [1]
155۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اگر صبر آدمی ہوتا تو لوگوں میں سے کمال درجہ کا آدمی ہوتا۔ گھبراہٹ، جہالت، حرص اور حسد سب شاخیں ہیں۔ ان کی اصل ایک ہی ہے (یعنی صبر کا نہ ہونا)۔‘‘
156۔ حسین بن عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ ایک ہندی حکیم کا قول ہے: ’’صبر عقل کی قوتوں میں سے ایک قوت ہے، عقل کی پیدائش کے بقدر صبر حاصل ہوتا ہے۔‘‘
157۔ حسین بن عبدالرحمن فرماتے ہیں، میرے سامنے ابو العتاہیہ نے اپنے متعلق یہ شعر کہے:
صبرت ولم ابدا کتئابا ولن تری اخا جـزع الا یـصیر الی الصبر
وانی وان ابدیت صبر الـمـنـطو عـلی حـزن منہ احر من الجمر
وامـلک من عینی الدموع وربما تباد ر عاص من سوابقہا یجری
’’میں نے صبر کیا اور اپنے رنج کو ظاہر نہ کیا اور تو گھبرانے والے کو نہیں دیکھے گا مگر وہ بھی بالآخر صبر کر ہی لیتا ہے۔ اگرچہ میں نے صبر ظاہر کیا ہے لیکن یہ ایسے غم پر محیط ہے جو انگارے سے بھی زیادہ گرم ہے۔ میں اپنے آنکھوں کے آنسوؤں کو قابو میں رکھتا ہوں لیکن بسا اوقات گناہ گار سے اس کے سابقہ جرائم کی وجہ سے آنسو بہ نکلتے ہیں۔‘‘
۱۵۸:… امام ابن ابی الدنیا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرے سامنے حسین بن عبدالرحمن نے یہ اشعار کہے:
تعز اذا اصـبـت بـکـل امر من التقوی امرت بہ مصابا
|