بشاشت طبع کے ساتھ استقبال کرنے کا نام ہے اور جو مصیبتیں نازل نہیں ہوئیں، ان کے خیال اور فکر میں انتظار کرنے کا نام ہے۔ پس جب آدمی اس حالت کو پہنچ جاتا ہے اس کو مصطبر کہتے ہیں اس کو پرواہ نہیں ہوتی کہ آگے کیا ہوگا؟
150۔ امام ابن ابی الدنیا فرماتے ہیں، ’’میں نے ایک حکمت میں پڑھا تھا کہ صبر کی دس صورتیں ہیں:
1۔ گناہوں سے رکنا بھی صبر ہے۔ 2۔فرائض پر عمل کرنا بھی صبر ہے۔
3۔شبہات سے بچنا بھی صبر ہے۔ 4۔فقر کو برداشت کرنا بھی صبر ہے۔
5۔درد کو برداشت کرنا بھی صبر ہے۔ 6۔مصیبتوں کو برداشت کرنا بھی صبر ہے۔
7۔لوگوں کی اذیت برداشت کرنا بھی صبر ہے۔
8۔خواہشات نفس سے باز رہنا بھی صبر ہے۔
9۔ فضول کلام سے بچنا بھی صبر ہے۔
10۔نوافل کی ادائیگی بھی صبر ہے۔
ان صوتوں میں سے ہر عمل جس کو تو کرتا ہے اور اس میں تجھے مشقت ہوتی ہے تو تو اس میں صبر کرنے والا ہے اور ہر وہ عمل جو تو کرے اور اس میں تجھے مشقت نہ ہو اس کا صبر سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لیے بہترین مدد ہوتا ہے کہ وہ اس کی تکلیف کی مشقت کو کافی ہو جاتا ہے اور مشقت میں حلاوت کا ذائقہ بھی دے دیتا ہے۔‘‘
151۔حضرت خلف بن اسماعیل فرماتے ہیں کہ مجھ سے ہند کے دانشوروں میں سے ایک آدمی نے کہا: ’’صبر اس شخص کے پاس ہو سکتا ہے جس کا اللہ کے پاس عظیم اجر موجود ہو۔ سب سے صابر قیامت کے دن پرہیزگاروں سے آگے بڑھ جائیں گے اور صبر ہر چیز میں اچھا ہے اور یہ اللہ کی اطاعت میں اور اس کی نافرمانی سے بچنے میں سب سے اچھا ہے۔‘‘
152 حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’عنقریب کچھ ایسے کام ہوں گے جن کو تم پہلے نہیں جانتے ہو گے تم پر ان میں صبر کرنا لازم ہے۔ اس وقت صبر انگارے کو مٹھی میں
|