Maktaba Wahhabi

243 - 292
ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے اس کی رحمت سے کیسے مایوس ہو سکتے ہیں؟ـ‘‘[1] 147۔ حضرت عبدالواحد بن زید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’مجھ سے شام کے ایک عبادت گزار نے کہا: اے ابوعبیدہ! خدا کی قسم کل صبر کرنے والے جان لیں گے کہ صبر کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اچھا نتیجہ ہوگا خوش کن ہوگا رد نہیں ہوگا اور اللہ کی نافرمانیوں میں گھر کر ان کو ہلکا سمجھنے والے بھی جان لیں گے کہ یہ نافرمانیاں ان پر وبال بن جائیں گی۔ ناتجربہ کار خائف کا راستہ برا ہے اور ڈر اور نگہبانی کو چھوڑنا ان چیزوں میں سے ہے، جن سے ڈرنا چاہیے پھر آپ رو پڑے۔‘‘ 148۔ حضرت ابن سماک فرماتے ہیں: ’’جس نے صبر کو سواری بنایا وہ عبادت پر قوی ہوگیا اور جس نے مایوسی کو سامنے رکھا۔ وہ لوگوں سے مستغنی ہوگیا۔ جس نے اپنے نفس کی فکر کی اس کی خاک کا کوئی اور وارث نہیں ہوگا۔ جس نے خیر سے محبت کی اور اس کو اس کی توفیق ملے گی اور جس نے شر کو ناپسند کیا وہ اس سے بچایا جائے گا اور جو آخرت کے مقابلہ میں کچھ بھی دنیا پر راضی رہا تو اس نے اپنے نفس کا حصہ گنوا دیا اور جس نے آخرت سے بڑا حصہ لینے کا ارادہ کیا اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے نفس کو اس پر لگا دیا اور اس پر دنیا اور دنیا کی سب چیزیں بے قیمت ہوگئیں۔ ترک دنیا پر صبر کرنا دنیا میں زہد کی اصل ہے اور گناہوں سے رکنا مشکل ہے اور اللہ کی فرمانبرداری پر صبر کرنا خیر کی فرع اور خیر کی تکمیل ہے۔‘‘ 149۔ حضرت حکیم بن جعفر فرماتے ہیں مجھے قرہ النحات نے بیان کیا: ’’میں نے بیت المقدس میں ایک عابد سے کہا: مجھے وصیت فرما دیں۔ انہوں نے فرمایا: اپنے اوپر صبر، تصبر اور اصطبار کو لازم کر لے۔ میں نے پوچھا صبر کیا ہے؟ تصبر کیا ہے؟ اور اصطبار کیا ہے؟ فرمایا: صبر مصیبتوں اور آزمائشوں کے نازل ہونے کے وقت تسلیم ورضا کا اور مصیبت کے نازل ہونے سے پہلے تسلیم ورضا پر اپنے نفوس کو مائل رکھنے کا نام ہے۔ اور تصبر مصیبت نازل ہونے کے وقت اس کی کڑواہٹ کے گھونٹ پی جانے کو اور اس کے گرنے کے وقت نفس کے مجاہدہ اور سکون کو کہتے ہیں۔ اور اصطبار مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے کے وقت ان کا
Flag Counter