شخص کا کیا حال ہوگا جس کے موجودہ ایام زندگانی کھوٹے ہوگئے۔‘‘اس کے بعد اتنے روتے تھے کہ ان کے آنسو ان کی داڑھی تک بہہ جاتے تھے۔‘‘
143۔ حضرت میثم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: ’’اے رب! تیرے بندوں میں سے کون زیادہ صبر والا ہے۔ فرمایا: ان میں سے جو غصہ کو زیادہ قابو میں رکھنے والا ہو۔‘‘
144۔ تمیم کے ایک بوڑھے نے بیان کیا: ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت صعصعہ بن صوحان رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: مروت کیا ہے؟ فرمایا: صبر اور خاموشی۔ اس کے لیے صبر کرنا جو تجھے غصہ دلائے۔ اگرچہ غصہ آپ کے قابو سے باہر ہو جائے اور خاموشی یہ ہے کہ جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے آپ خاموش رہیں۔‘‘
145۔ حضرت ابو ایوب انصار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کی جہاد میں (دشمن سے) مڈبھیڑ ہوئی اور اس نے حوصلہ نہ ہارا۔ حتیٰ کہ شہید کر دیا گیا یا غالب آگیا تو اس سے قبر میں (منکر نکیروں کی طرف سے) سوال جواب نہیں کیا جائے گا۔‘‘[1]
146۔ حضرت مسمغ بن عاصم فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت سیدنا عبدالواحد بن زید نے فرمایا: ’’جو اللہ کی عبادت میں صبر کی نیت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس پر صبر دے دیتا ہے اور قوت دے دیتا ہے اور جو شخص اللہ کی نافرمانی سے رکنے پر صبر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی اس پر مدد کرتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر مجھے فرمایا: اے سیار! تیرا کیا خیال ہے تو اپنی خواہش کے مقابلہ میں اللہ کی محبت کو نباہ سکتا ہے۔ اگر تو ایسا کرے تو کیا وہ تیرے صبر کو ناکام کر دے گا۔ جس نے اپنے آقا سے بدظنی کی اس نے برا کیا۔ اس نے بھی اور اس طرح کے دوسرے لوگوں نے بھی۔ پھر حضرت عبدالواحد رو پڑے اور اتنا روئے کہ مجھے ڈر لاحق ہوا کہ غشی نہ ہو جائے پھر فرمایا: اے مسمغ! تجھ پر میرا باپ قربان گناہ گاروں پر صبح وشام نعمت
|