مجھے دنیا سے بے رغبت کر کے اپنے لیے بقاء بخشی اور مجھ پر دنیا کی ساری مصیبتوں کو آسان کیا۔ پس جو چیز اللہ نے مؤخر کی ہے مجھے اس میں جلدی کرنا پسند نہیں ہے اور جو اللہ نے جلدی کی ہے اس میں مجھے تاخیر پسند نہیں ہے۔ اس کے بعد اس کو پیش کیا گیا اور اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور آنکھیں نکالی گئیں، حتیٰ کہ وہ مر گئی۔
137۔ حضرت بکر بن حمران فرماتے ہیں: ’’جب شجاء سے کہا گیا کہ تیرے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا اور تیری آنکھوں میں سلائی پھیرنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس نے کہا: سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ خوشی اور غمی میں عافیت میں اور مصیبت میں، مجھے تو اللہ کی راہ میں اس سے بھی زیادہ تکلیف دئیے جانے کی امید تھی۔ پھر جب اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے تو اس کا خون نہیں رکتا تھا چنانچہ اس کو موت کا یقین ہوگیا تو اس نے کہا: زندگی میلی تھی اور موت پاکیزہ ہے۔ اے نفس! اللہ کے بڑے ثواب کو جس کی تجھے امید تھی، پہنچ گیا ہے تو نے ہمیشہ کا سرور پا لیا تجھے اس کے ساتھ دنیا کی کڑوی زندگی نقصان نہیں دے گی اور نہ ہی فانی زندگی میں لوگوں کا لڑنا جھگڑنا نقصان دے گا۔ اس کے بعد اس کے جسم کو کچھ دیر اضطراب ہوا پھر مر گئی۔‘‘
138۔ سالم بن عمر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ’’ سالم ہلالی (خارجی) نے ایک جنازہ پڑھایا۔ پھر اوس کے محل کے سایہ میں بیٹھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا: ہر بستر پر مرنے والا بدگمانی میں ہے (یعنی اس کی موت کے اچھے برے ہونے میں بدگمانی رہتی ہے) پھر کہا: تمہیں پتہ ہے تمہاری بہن شجاء کا کیا حال ہوا تھا؟ انہوں نے کہا: اس کا کیا حال ہوا تھا؟ اس نے کہا: ابن زیاد نے اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے تھے اور اس کی آنکھوں میں سلائیاں پھیری تھیں تو اس نے تکلیف کا کوئی کلمہ نہ کہا۔ اس سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے کہا مجھے موت کے طاری ہونے کے وقت نے تمہارے اس لوہے کے درد سے اپنی طرف مصروف کر لیا تھا۔‘‘
139۔ حضرت بکر بن مصاد عابد فرماتے ہیں: ’’مالک بن دینار خود بھی روتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی رلاتے تھے اور اپنے رونے کے درمیان فرماتے تھے کہ اللہ کی اطاعت پر
|