اس نے کہا: ’’اپنے دکھ میں اگر بصیرت پر ہوں تو یہ اس ثواب کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ جس کی میں اللہ سے طلب گار ہوں۔ اس کے بعد اس نے اپنی موت تک کوئی بات نہیں کی۔‘‘
134۔ ابوسوار عدوی فرماتے ہیں، جب شجاء (نامی خارجی عورت) کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے تو میں نے اس سے زیادہ بلا پر صبر والا مرد اور صبر والی عورت کبھی نہیں دیکھی۔ جب لوگ اس کا مثلہ کر رہے تھے تو وہ اپنے نفس کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہی تھی اللہ کی طرف جا رہی ہوں، اللہ کی قسم اللہ میرے نزدیک اس کی مخلوق سے زیادہ محبوب ہے، پھر مر گئی۔‘‘
135۔ عبدالملک بن کریب اصمعی فرماتے ہیں، مجھے اس آدمی نے بیان کیا جس نے اس عورت کو دیکھا تھا : ’’جب اس کو عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس لیے حکم دیا گیا تو اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹ دئیے تو اس نے کوئی لفظ نہ کہا۔ پھر جب اس کو داغنے کے لیے آگ لائی گئی اور اس نے آگ کو دیکھا تو چیخ پڑی۔ اس سے پوچھا گیا تیرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کاٹے گئے تو تو نے کوئی بات نہ کی، جب تو نے آگ دیکھی تو ابھی وہ تیرے قریب نہیں پہنچی تھی کہ تیری چیخ نکل گئی۔ اس نے کہا: میں تمہاری آگ دیکھ کر نہیں چیخی اور نہ ہی میں نے تمہاری دنیا پر افسوس کیا ہے بلکہ میں نے اس کو دیکھتے ہی جہنم کی آگ کو یاد کر لیا تھا۔ اس لیے وہ ہوا جو تم نے دیکھا ہے۔ پھر اس کے لیے حکم دیا گیا تو اس کی دونوں آنکھوں میں سلاخیں پھیر دی گئیں تو اس نے یہ دعا کی: (اے اللہ! دنیا میں میرا غم طویل ہوگیا پس آخرت کی وجہ سے میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا)۔ یہ کہہ کر مر گئی۔‘‘
136۔ حضرت عبدالجلیل القیسی فرماتے ہیں: ’’جب عبیداللہ بن زیاد نے شجاء کے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کا حکم دیا تو وہ کارندہ جس نے یہ کام کرنا تھا لوہے اور رسی کے ساتھ آیا تو اس عورت نے کہا: مجھ سے دور رہو میں ایسے کلمات پڑھتی ہوں جو ان کو سنے گا وہ مجھ سے یاد کر لے گا۔ پھر اس نے اللہ کی تعریف اور ثناء کی، پھر کہنے لگی۔ یہ میری دنیا کا آخری دن ہے۔ اس پر مجھے کوئی افسوس نہیں اور مجھے امید ہے کہ آخرت کے دنوں میں سے یہ میرا پہلا دن ہے جو مجھے پسند ہے۔ پھر کہنے لگی: خدا کی قسم! مجھے اپنی فناء کا علم ہے۔ وہ ذات جس نے
|