چاہتا ہے جبکہ میں دنیا کا بادشاہ ہوں اور اس کی دلہن میرے پاس ہے۔ میں نے کہا: تیرے پاس تو دنیا کا کوئی ملک نہیں تو تو اندھا ہے، نہ تیرے ہاتھ ہیں نہ پاؤں اور تو ایسے کھاتا ہے جیسے جانور کھاتے ہیں۔ اس نے کہا: میں اللہ عزوجل سے راضی ہوں کیونکہ اس نے میرے اعضاء کو ختم کر دیا اور میری زبان کو اپنے ذکر میں جاری کر دیا ہے۔ حضرت خلف فرماتے ہیں کہ اس شخص کی اس بات سے میرے ہاں اس کی پوری قدر ومنزلت پیدا ہوگئی پھر وہ تھوڑی دیر زندہ رہا اور فوت ہوگیا۔ میں نے اس کے لیے کفن کا بندوبست کیا کفن چونکہ لمبا تھا اس لیے میں نے کچھ کاٹ لیا تو خواب میں مجھے کوئی ملا اور مجھ سے کہا گیا اے خلف! تو نے میرے ولی پر لمبا کفن دینے سے بخل کیا ہے، ہم نے تیرا کفن واپس کر دیا ہے اور اس کو اپنی طرف سے سندس اور استبرق (کے کپڑے) کا کفن دے دیا ہے۔ خلف فرماتے ہیں کہ میں اس جگہ گیا جہاں کفن ملتے ہیں تو دیکھا کہ کفن وہاں پڑا ہوا ہے۔‘‘
132۔ حضرت یحییٰ بن عمر حنفی نے بنو حنیفہ کے ایک آدمی سے نقل کیا کہ ’’انہوں نے اپنے ایک بوڑھے کے پاس ایک معالج کو علاج کے لیے بلایا تو اس نے انکار کر دیا اور کہا میں نے اللہ کو پایا ہے کہ اس نے صبر والوں کو ایسے انعامات دئیے ہیں کہ اپنے بندوں میں سے کسی کو ایسے انعامات نہیں دئیے۔ پوچھا گیا: اللہ تم پر رحم کرے وہ کیا انعام ہیں؟ اس بوڑھے نے کہا: میں نے سنا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: (صابرین کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا) اس لیے میں نے کبھی بھی اس اجر کے برابر کسی چیز کو نہیں دیکھا۔ چنانچہ اس نے علاج نہ کرایا اور جب درد شدت اختیار کرتا تھا تو وہ کہتا: (تو اس سے درد کو سکون ملتا اور اس کی وجہ سے اس کو ہلکاپن محسوس ہوتا تھا)۔‘‘
133۔ حضرت ابوالمحبربن قحذم فرماتے ہیں: ’’خارجی فرقہ کی ایک مشہور شجاء نامی عورت تھی۔ جب اس کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے تو اس نے صبر کیا اور اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے قرآن کی یہ آیتیں پڑھنے لگی۔ (اور آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر کرنا خدا ہی کی توفیق سے ہے)۔ (اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھی بات ہے)۔ پھر
|