سے گھٹیا! میری پنڈلی کو توڑنے کے بعد اس کو دہرا کرتا ہے؟ خدا کی قسم! میں تیرے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ جب صبح ہوئی تو وہ حجاج کے پاس گیا تو حجاج نے اس سے کہا: تیرے قیدی نے کیا کیا ہے؟ اس نے کہا: اگر امیر کی رائے ہو تو اس کو منگوا لے اس نے میری جیل کے لوگوں کو مجھ پر بگاڑ دیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اب صبر نہیں کریں گے۔ حجاج نے کہا حطیط کو میرے سامنے پیش کرو۔ آپ کو اس کے سامنے لایا گیا اور اس کے سامنے رکھ دیا گیا۔ حجاج کے پہلو میں اہل شام کے مشائخ میں سے ایک شیخ بیٹھا ہوا تھا۔ حطیط نے حجاج سے کہا: کیا دیکھتے ہو؟ تو اسحاق نے کہا: یہ معد کی بات سوچ رہے ہیں۔ (جو اس نے کہی تھی کہ) اس نے قسم اٹھا کر کہا تھا کہ میں تجھے ضرور اس کی چیخیں سناؤں گا۔ تو آپ سے حجاج نے کہا: کیا تم قرآن سے کچھ پڑھ سکتے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: پڑھو۔ حطیط نے کہا: نہیں بلکہ تم پڑھو۔ تو حجاج نے ان سے کہا: تم پڑھو۔ حطیط نے فرمایا: نہیں بلکہ تم پڑھو جو کچھ تم پڑھو گے (اور) ہر بار بات اسی پر لوٹاتے رہے۔ تو حجاج نے یہ آٹھ آیات پڑھیں: ’’بیشک انسان پر ایک زمانہ میں ایسا وقت بھی آچکا ہے جس میں کوئی چیز قابل تذکرہ نہ تھا۔‘‘ حتیٰ کہ وہ اس ارشاد باری تعالیٰ تک پہنچا۔ ’’اور لوگ خدا کی محبت سے غریب اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘ حطیط نے فرمایا: ٹھہر جاؤ، تو حجاج ٹھہر گیا۔ تو اس سے حطیط نے فرمایا: یہ ہے وہ آیت دیکھو تم قیدیوں وغیرہ کو عذاب دیتے ہو۔ تو حجاج نے کہا: میرے سامنے عذاب دینے کی چیز پیش کرو۔ چنانچہ اس کے پاس موٹی سوئی اور کھجور کا موٹا کانٹا لایا گیا۔ پھر اس کے حکم کے مطابق آپ کی انگلیوں میں ان کو چبھویا گیا۔ تو وہ شیخ جو حجاج کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے کہا: خدا کی قسم! میں نے آج کے دن کی طرح اس سے زیادہ صبر والا شخص نہیں دیکھا۔ تو اس سے حطیط نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مومنین پر صبر کو پلٹ دیتا ہے۔ تو حجاج نے معد سے کہا: تو تباہ ہو جائے۔ مجھے اس سے راحت پہنچا۔ تو اس نے ان کو حجاج کے سامنے سے اٹھا لیا۔ حجاج کے کسی معاون نے کہا کہ میں نے ان پر ترس کھایا اور ان کے قریب ہوا اور کہا: کیا تمہاری کوئی حاجت ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں۔ بس میری زبان خشک ہوگئی ہے میں اللہ کے ذکر کی اب استطاعت نہیں رکھتا۔‘‘
|