بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) کیا ایسا نہیں ہے؟ تو ان سب نے جواب میں حجاج سے مطالبہ کیا کہ ہمیں اس کا خون پلا دو۔ (یعنی اس کو قتل کر دو)۔‘‘
123۔ حضرت عمر بن قیس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’جب حضرت حطیط الزیات کو حجاج بن یوسف کے سامنے پیش کیا گیا تو حجاج نے ان سے پوچھا: کیا تو حروری ہے؟ آپ نے فرمایا: میں حروری نہیں ہوں لیکن میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ میں تیرے ساتھ اپنے ہاتھ سے اپنی زبان سے اور اپنے دل سے جہاد کروں گا۔ میرے ہاتھوں کو تو نے باندھ دیا ہے۔ لیکن میری زبان سے تو سن رہا ہے وہ کیا کہتی ہے۔ اور میرے دل کی حالت کو اللہ جانتا ہے کہ اس میں کیا گزرتی ہے۔ حجاج کی پولیس کے افسر نے چھلانگ لگا کر حجاج سے کچھ سرگوشی کی تو حطیط نے حجاج سے کہا: اس کی بات مت سننا یہ تجھے دھوکہ دے رہا ہے۔ تو ان سے حجاج نے کہا: تم حضرت ابوبکر و عمررضی اللہ عنہماکے بارے میں کیا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: میں ان کے بارے میں اچھی بات کہتا ہوں۔ اس نے کہا: عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: میں اس وقت پیدا نہیں ہوا تھا۔ حجاج نے آپ سے کہا: اے بدبودار عورت کے بیٹے! کیا تم ابوبکر وعمر کے زمانہ میں پیدا ہوگئے تھے اور عثمان کے زمانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ تو اس سے حطیط نے فرمایا: اے بدبودار عورت کے بیٹے! جلدی نہ کر میں نے لوگوں کو
پایا ہے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر و عمر پر اجماع کیا ہے تو میں نے ان کی بات کو لے لیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا تو میں نے خاموشی میں وسعت پائی۔ حجاج کی طرف سے عذاب دینے والا معد نامی شخص اچھل کر کھڑا ہوا اور کہا: اگر گورنر کی رائے ہو تو وہ اس کو میرے سپرد کر دے۔ خدا کی قسم! میں آپ کو اس کی چیخیں سناؤں گا۔ حجاج نے کہا: اس کو گرفتار کر لے۔ تو اس نے آپ کو اپنی گرفت میں لیا اور رات بھر عذاب دیتا رہا لیکن حطیط نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ جب صبح ہونے کو تھی تو اس نے آپ کی پنڈلیوں کو پیسنے کے لیے دو لکڑیاں منگائیں اور آپ کی پنڈلی کو اذیت دے کر توڑ دیا اور اس کو دہرا کر دیا۔ تو اس سے حضرت حطیط رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اے لوگو! میں سب سے بگڑے ہوئے اور سب
|