115۔حضرت قیس بن حجاج اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْـلًا‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مصیبت والا قوم میں ایسا ہو کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ اس کو کیا دکھ ہے۔
116۔ حضرت عمرو بن قیس الملائی ’’فصبر جمیل‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مصیبت پر راضی رہنا اور سر تسلیم خم کرنا صبر جمیل ہے۔
117۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’کظیم صبر کرنے والے کو کہتے ہیں۔‘‘[1]
118۔ حضرت خالد بن خداش فرماتے ہیں: ہم سے حضرت صالح المری نے فرمایا: ’’اگر صبر میٹھا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے نہ فرماتے اِصْبِرْ (صبر کرنا) لیکن صبر کڑوا ہے۔‘‘[2]
119۔ حضرت مجاہد (فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ وعد اللہ سے مراد صابرین کے لیے ان کا ثواب ہے۔
120۔حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’پہلی صدی میں ایک شخص نے دوسرے کو گالی دی تو دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اپنے چہرہ سے پسینہ کو پونچھ کر یہ آیت پڑھی: (اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے یہ البتہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے) حضرت حسن فرماتے ہیں کہ یہ شخص اس آیت کو سمجھتا تھا اور اس کی فہم رکھتا تھا، جبکہ اس کو جاہل لوگ
ضائع کر دیتے ہیں۔‘‘[3]
121۔حضرت محمد سوقہ فرماتے ہیں کہ یہ بات معروف تھی کہ صبر کے ساتھ فراوانی کے ایام کا انتظار کرنا عبادت ہے۔
122۔ حضرت ابوبکر بن عیاش اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’حضرت حطیط رحمۃ اللہ علیہ تیل بیچتے تھے اور گورے رنگ کے جوان تھے۔ آپ حجاج بن یوسف کے پاس گئے اور فرمایا: تمہیں حیا نہیں آتی۔ گورنر ہو کر جھوٹ بولتے ہو؟ تیرا خیال ہے کہ کسی گناہ گار کو چھوڑنا حلال نہیں اور یہ تیرے چچا زاد تیرے آس پاس سب گناہ گاروں کا ٹولہ ہے۔ (پھر اس کے اردگرد
|