ان اصابہم ما یحبون حمدوا وشکروا، وان اصابہم ما یکرہون احتسبوا واصبروا، اعطیہم من حلمی وعلمی))[1]
’’اللہ عزوجل نے فرمایا: اے عیسیٰ! میں تیرے بعد ایک امت (محمدیہ) کو پیدا کرنے والا ہوں۔ اگر ان کو وہ چیز ملے گی جس کو وہ پسند کرتے ہوں گے تو وہ حمد وشکر بجا لائیں گے اور اگر ان کو وہ چیز پہنچی جس کو وہ ناپسند کرتے ہوں گے تو وہ اس پر ثواب کی امید رکھیں گے اور صبر کریں گے۔ میں ان کو اپنا تحمل اور علم عطا کروں گا۔‘‘
92۔حضرت ابومحمد الازدی البصری فرماتے ہیں: ’’ایک شخص نے حضرت حسن بن حبیب بن ندبہ کو ان کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا اور پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ فرمایا: مجھے دنیا میں فقر پر میرے صبر کی وجہ سے معاف فرما دیا۔‘‘
93۔ حضرت ربعی بن حراش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین کے دور دراز علاقوں میں ایک لشکر بھیجا۔ وہ بنو عبس کے کچھ بوڑھوں کو لے آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا: تم نے قبل از اسلام کے زمانہ میں لوگوں سے جنگیں لڑی ہیں، تم نے کون سے قسم کا گھوڑا زیادہ صبر والا دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: جس کا رنگ سرخ اور سفید کے بین بین ہو۔ آپ نے پوچھا اور کون سا اونٹ تم نے زیادہ صبر والا دیکھا؟ انہوں نے کہا: پیچ در پیچ بالوں والا۔ آپ نے پوچھا: تم نے کون سی عورت زیادہ صبر والی دیکھی۔ انہوں نے کہا: ہم میں بے وطن عورت نے کبھی بھی صبر نہیں پایا۔ آپ نے پوچھا: تم کس وجہ سے لوگوں پر غلبہ پاتے تھے۔ انہوں نے کہا: صبر کے ساتھ ہم جس قوم کے مقابلہ میں نکلے تو ان کے مقابلہ میں اتنا حوصلہ اختیار کیا کہ وہ ہمارے مقابلے میں ویسا حوصلہ نہیں رکھتے تھے۔‘‘
94۔ امام اوزاعیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، مجھے ایک دانشور نے بیان کیا: ’’میں جہاد کی خاطر نکلا میرا ارادہ تھا کہ جہاں رات دن دشمن کا خطرہ رہتا ہے ایسی چوکی پر پہنچوں گا جب میں عریش مصر تک پہنچا، یا عریش مصر سے ذرا دور تھا، میں نے ایک چھپر کے نیچے ایک آدمی کو
|