اللّٰہ ہو الذی یغیر۔[1]
’’جب تم کوئی ایسی حالت دیکھو کہ تم اس کو تبدیل نہیں کر سکتے تو اس پر صبر کرو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ خود ہی اس کو بدل دے۔‘‘
76۔ حضرت عصمت بن ابی حکیمہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن رو پڑے۔ عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے رلا دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا: میں نے اپنی امت کا آخری زمانہ اور ان پر ڈالی جانے والی مصیبتوں کو یاد کیا ہے۔ ان میں سے صبر کرنے والا قیامت کے دن جب آئے گا تو اس کو دو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘[2]
77۔حضرت بکر بن عبداللہ مزنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایک آدمی کثرت سے خیر طلب کیا کرتا تھا۔ اس پر مصیبت پڑی تو گھبرا گیا اور صبر نہ کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے انبیاء میں سے ایک نبی کی طرف وحی فرمائی کہ میرے فلاں بندے سے کہہ دیجیے کہ اگر تو صبر کرنے والے لوگوں میں سے نہیں تھا تو مجھ سے عافیت کا استخارہ کیوں نہیں کیا؟‘‘[3]
78۔حضرت سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ ایک عالم نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل نے تمہیں دنیا بطور قرض کے دی ہے اور تم سے اس کو قرض کے طور پر مانگا ہے۔ پس اگر تم دنیا اپنی خوشی سے اللہ کو دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ایک نیکی کو دس تک بلکہ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا دے گا اور اگر وہ تم سے خود لے اور اس لینے کو تم پسند نہیں کرتے تھے لیکن تم نے صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو یہ تمہارے لیے خاص رحمت اور عام رحمت بنے گی اور تمہارے لیے ہدایت لازم ہو جائے گی۔‘‘[4]
79۔ حضرت عبداللہ بن نافع زبیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ایک بزرگ تھے وہ کہا کرتے تھے صبر میں تقویٰ کی مختلف چیزیں جمع ہیں اور یہی مومنین کی پناہ گاہ ہے۔
|